چند روز قبل پاکستان کے قومی پریس میں ”حنا بلاول افیئر“ کے عنوان سے خبروں کی اشاعت ہوئی۔ بنگلہ دیش کے ایک ٹیبلائڈ بلٹز ویکلی“ کا حوالہ تھا۔ تفصیلات اپنی اخلاق سوزی کے باعث دہرانا ضروری نہیں، آپ یہ بیمار فکر کہانی پڑھ چکے ہوں گے! 3 اور 4 اپریل 1979ء کی درمیانی رات اس پھانسی کا آسیبی واقعہ، اس ہدایت سے بھی مشروط تھا کہ ”ایک فوٹو گرافر، جو ایک انٹیلی جنس ایجنسی سے تھا، اپنے سامان کے ساتھ تین اپریل شام چار بجے جیل میں رپورٹ کرے گا۔ وہ بھٹو صاحب کی لاش کے فوٹو لے گا پھانسی اور غسل کے بعد اس فوٹو گرافر نے بھٹو صاحب کے جسم کے درمیانی حصے کے نزدیکی فوٹو لئے تھے۔ (بحوالہ کرنل رفیع الدین)
پاکستان پیپلز پارٹی، بھٹوز اور پاکستانیوں کے حق رائے دہی ایشو کے تناظر میں یہ انتقامی جذبے کی خناس ترین شکل تھی، خیال تھا اب معافی مل جائے گی لیکن معافی نہیں ملی، بلاول کا تعاقب شروع ہو گیا ہے۔ ”حنا بلال افیئر“ اس ناپاک حس کی مجوزہ فلم کا صرف ٹریلر ہے، میرا یقین ہے مکمل پکچر کی تیاری میں دن رات ایک کیا جا رہا ہو گا۔
بنگلہ دیشی ٹیبلائڈ ”ویکلی بلٹز“ کا ایڈیٹر صلاح الدین صہیب چوہدری جس نے پاکستانی وزیر خارجہ کے خلاف جھوٹ کا یہ طوفان اٹھایا، اپنے ملک میں زرد صحافت کی بری اور بدنام ترین شناختی علامت ہے۔ وہ اپنے اس ٹیبلائیڈ کی باقاعدہ ہفتہ وار اشاعت کا مدعی ہے گو یہ وہاں کی اخباری مارکیٹ میں کبھی دستیاب نہیں ہوتا۔ یہ جریدہ خود ساختگی اور دروغ گوئی کی آمیزش سے تیار شدہ صحافتی آلودگی ہے جس میں بسا اوقات شر غالب اور اعتبار ساقط ہو جاتا ہے۔ صہیب نے اپنے وطن میں متعدد افراد کے ساتھ دھوکہ دہی کی وارداتیں کیں دو خواتین نے سرعام اس کے جرائم کا پردہ چاک کیا۔ ایک خاتون برینڈا ویسٹ کا کہنا ہے ”چوہدری ایک مشکوک ویب سائٹ آپریٹ کرتا ہے۔“
"Jethro Conglmerate" اس ویب سائٹ کا نام ہے، چوہدری اپنی اسی سائٹ کے ذریعہ ایک کمپنی میں نمائندگی کا دعویدار بھی ہے جبکہ اس ادارے کا کوئی قانونی وجود ہی نہیں، نہ اس کا کوئی لائسنس ہے، نہ اس کے کرتا دھرتا کا کوئی پتہ ہے۔ چوہدری اپنی ایسی شب خوں نوعیت کی سرگرمیوں میں ایک اور شخص عزیز محمد بھائی کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ یہ قابل قدر ہستی کیا ہے؟ موصوف 2009 میں اپنے ملک سے فر ار ہو گئے تھے دیگر جرائم کے علاوہ آپ قاتل بھی ہیں!
جون 2011ء میں صہیب چوہدری کی زرد صحافتی گندگی میں کہیں کسی مقام پر تاس نیوز ایجنسی کی وائر سروس کا حوالہ آگیا جس پر ایجنسی کی ترجمان لورا پروٹووا نے ایک ای میل کے ذریعہ دنیا بھر کے پریس کو آگاہ کیا ”یہ شخص کبھی کسی بھی حیثیت سے ہمارا ملازم نہیں رہا۔ ہمارے ریکارڈ کے مطابق ہماری کسی بھی شاخ سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔“ صلاح الدین صہیب چوہدری متعدد دوسرے بدتینت افراد کی طرح میڈیا کے نام پر اپنی مجرمانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ بڑی دیدہ دلیری سے اپنے ویکلی ٹیبلائیڈ "BILTZ" کو ”ہندوستان ٹائمز“ کے سنڈیکیٹ کا حصہ قرار دیتا ہے جس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا، البتہ چونکا دینے والا اتفاق ہے کہ ”حنا بلاول افیئر“ کی اخترا پردازی کو بھارتی میڈیا نے خوب ہوا دینے کی کوشش کی“ چوہدری کی جانب سے اس تراشیدہ اسٹوری کے پس منظر میں پاکستانی پریس نے پی پی کی قیادت سے بھی چند باتیں منسوب کیں جن کے مطابق ”پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک عہدیدار نے برطانوی اخبار ”ٹیلی گراف“ سے ”آئی ایس آئی توقع کر رہی ہے کہ لوگوں کی گمشدگی کے بارے میں اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ فوج اور انٹیلی جنس کے اعلیٰ عہدیداروں پر الزام لگا کر ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کر سکتا ہے جبکہ اس گروپ کو آمد کی سہولت فراہم کرنے کا الزام کھر پر ہے۔ مشن کا نہایت سرد مہری سے استقبال ہوا لیکن حنا کو صدر اور آرمی چیف سے ملاقات کیلئے طلب کیا گیا کیونکہ حنا نے سرخ لائن کو عبور کیا تھا۔“
صدر نے کہا تھا ”بی بی کو ایک خاص مائنڈ سیٹ نے قتل کیا“ عظیم قومی اور عالمی خاتون رہنما، قائد ملت لیاقت علی خان کے بعد ہمارے ملک کی دوسری متفقہ شہید شخصیت کے قاتلوں کے بارے میں یہی اطلاع کائناتی سچائی ہے، باقی جو کچھ کہا گیا یا اب بھی کہہ دیا جاتا ہے، وہ اسی مائنڈ سیٹ سے وابستہ نسل کی ذہنی ابتری کے سوا کچھ نہیں، ہمارے بعض دوست اور مخلص عوام یقینا ان سے متاثر ہوتے رہتے ہیں مگر اس تاثر کو ایک لمحے کی زندگی بھی اب نصیب نہیں ہوتی۔ یہ ”بے چارے لوگ“ پاکستان کی دھرتی پر مخلوق خدا کے لئے فکری عذاب الیم اور اپنی ذات کے لئے فکری بلیک ہول کے مکیں ہیں۔ روشنی ان کے لئے موت کا طے شدہ استعارہ ہے! تاریخی جبر اور وقت کے گجر کا ادراک ان کے پاس سے چھو کر بھی نہیں گزرا۔ جس صدر اور جس پاکستان پیپلز پارٹی سے سید یوسف رضا گیلانی کی متوقع علیحدگی میں انہوں نے حزینہ کورس سانگ گایا ہے، بھلا اس پارٹی اور اسے کسی وقتی سیاسی آرزو کے ادھورے جانے پر الوداع کہنے والوں کا اختتامی باب کیا ہے؟ یہ سب ”بے چارے لوگ“ کسی شاندار کلب میں ڈنر پر اکٹھے ہو کر ایسے حضرات کی فہرست مرتب کریں۔ جو نام بھلے یاد آ رہے ہیں، وہ پیش خدمت ہیں، کوثر نیازی، غلام مصطفی جتوئی، ڈاکٹر مبشر حسن، ڈاکٹر غلام حسین، غلام مصطفی کھر، محمد حنیف رامے، فاروق لغاری، افضل سندھو، ممتاز بھٹو، حفیظ پیرزادہ، مرتضیٰ بھٹو، غنویٰ بھٹو، مخدوم خلیق الزماں، شاہ محمود قریشی پارٹی سے علیحدگی کے بعد ان سب کے سیاسی بکھراؤ، سیاسی بن باس اور سیاسی گمشدگی کا نہایت ہی دلدوز انجام پاکستانیوں کے سامنے ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ کبھی تھے ہی نہیں وقت بہت جلد میرے بیان کردہ اس منظر کو شاہ محمود قریشی کی شکل میں پیش کر دے گا۔ ناہید خان اور صفدر عباسی پارٹی کو خیر باد نہ کہنے کے باعث ابھی قابل ذکر ہیں۔ دونوں قومی سیاسی جماعت کا ایک تنکا بھی ادھر اُدھر نہیں کر سکے، اپنی ناراضی کے رومانس پر گزارہ کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں پی پی کو چھوڑ کر جانے والوں میں اور کون کون یاد نہیں آ سکا، کیا یہ بھی سیاسی بے نامی کا آخیر نہیں؟ قومی سیاسی جماعتوں کے سمندر میں آپ اس کا حصہ بن کر بھونچال پیدا کر سکتے ہیں۔ دوسرا کوئی راستہ نہیں، ان دنوں مخدوم جاوید ہاشمی ہے بے طرح یاد رہتے ہیں وہ میاں نواز شریف سے خفاء تھے میرے تھوڑے بہت نظریاتی وجدان کے مطابق برسوں پر مشتمل صعوبتوں کی بھٹی سے کندن ہو کر تکمیل پانے والے سیاسی کیریئر کے سلسلے میں انہوں نے شاید اپنی زندگی کا سب سے فیصلہ کن مشکوک فیصلہ کیا جس کی ناکامی کا کوئی باب نہیں ہو گا۔
وقت کلیتہً تبدیل ہو گیا ہے، پاکستان کے موجودہ تاریخی سماں میں دائیں بازو کو ”ان“ کی ریاستی طاقت سے کسی ”قومی اتحاد“ یا ”آئی جے آئی“ کی نعمت غیر مترقبہ میسر آنا قصہ پارینہ ٹھہرا۔ ذوالفقار علی بھٹو، شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، نصرت بھٹو، بی بی شہید، صدر زرداری اور اب بلاول بھٹو سے منسوب مجوزہ منصوبے SALE کرنے کی مارکیٹوں میں گرد اڑ رہی ہے، قومی سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہو جانے والی شخصیات پاکستانی عوام کی مین سٹریم سوچ میں بطور مثال بھی کوئی کمزوری پیدا نہیں کر سکتیں، محسوس بہرحال یہی ہو رہا ہے کہ وقت اور تاریخ کے تبدیل شدہ دھارے اپنی جگہ فکر، نظریاتی بلیک ہولز کے مکینوں کا فکری مائنڈ سیٹ بھی اپنی جگہ، خیال تھا اس پھانسی کی مسلمانی چیک کرنے کے بعد معافی مل جائے گی مگر معافی ملی نہیں، اب ”وہ“ بلاول کے تعاقب میں ہیں!