• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ماحول سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں کافی کمزور ہوں گی جن میں اہم فیصلے کرنے کی نہ تو جرات ہو گی اور نہ ہی صلاحیت۔جب تک حکومتوں اور ان کے سربراہوں میں اعتماد نہیں ہوگا وہ کوئی بھی اہم کام کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔ اس طرح کا ایک نمونہ اس وقت بلوچستان میں سامنے آیا جب سینیٹ الیکشن سے کچھ ہفتے قبل نون لیگ ، نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی صوبائی حکومت کو تبدیل کر دیا گیا اور اکثریتی جماعت یعنی نون لیگ ہوا میں اڑ گئی۔ غالب امکان یہی ہے کہ اس طرح کی حکومتیں ہی اگلے انتخابات کے بعد معرض وجود میں آئیں۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات، جو کہ مارشل لا کی چھتری کے نیچے ہوئے تھے، کے نتیجے میں بننے والی حکومت مارشل لااور جمہوریت کا کامبنیشن تھا جس میں اصل طاقتور اس وقت کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق تھے۔ پوری قومی اسمبلی کو کئی ہفتے اسکین کیا گیا اور قرعہ فال محمد خان جونیجو کے نام نکلا۔ وزیراعظم بننے کے چند ہفتوں بعد ہی انہوں نے اعلان کر دیا کہ مارشل لا اور جمہوریت (یعنی موجودہ نظام) اکٹھے نہیں چل سکتے اور بعد میں یہ بات وہ بار بار دہراتے رہے جو کہ یقیناً ضیاء الحق کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف تھا۔ اسکیم یہ بھی تھی کہ قومی اسمبلی کاا سپیکر بھی اپنی مرضی سے بنایا جائے مگر ایسا نہ ہوسکا کیونکہ چند دنوں بعد ہی ایوان زیریں کے پر نکل آئے اور سید فخرامام کوا سپیکر منتخب کر لیاگیا۔ اس ’’جمہوریت‘‘ نے بالآخر مجبور کر دیا کہ اسے 1988ء میں 58 (2)(b) کے تحت چلتا کرنا پڑا۔ لہٰذا یہ تجربہ ناکام ہوگیا کیونکہ جس کو وزیراعظم بنایا گیا اسی نے یہ سمجھ لیا کہ وہ واقعی وزیراعظم ہے۔ اس کے کچھ ماہ بعد اسی سال اگست میں جنرل ضیاء الحق کا طیارہ کریش کر گیا۔ آرٹیکل 58(2)(b) کو سوچ سمجھ کر آئین میں ڈالا گیا تھا کہ کس طرح جمہوریت کو کنٹرول کرنا ہے ۔ اس سے جمہوریت تو کنٹرول ہوگئی مگر ملک میں سیاسی افراتفری ہی رہی اور کمزور حکومتیں بڑے فیصلے کرنے کے قابل نہ تھیں۔
1988ء میں قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اور بینظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں مگر ان کی حکومت کافی کمزور تھی، یہ 20ماہ چل سکی۔ پھر 1990ء کے انتخابات میں نوازشریف الیکشن جیت گئے اور وزیراعظم بن گئے مگر غلام اسحاق خان کے پاس 58 (2)(b) کا ہتھوڑا موجود تھا جس کو انہوں نے کم ازکم دو بار یہ الزام لگاتے ہوئے استعمال کیا کہ بینظیر بھٹو اور نوازشریف اس دنیا کے سب سے زیادہ کرپٹ لوگ ہیں۔ 1993ء میں پھر پیپلزپارٹی نے الیکشن جیت لیا اور بینظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں مگر ان کی حکومت حسب معمول کمزور ہی رہی اور سازشوں میں گھری رہی جس کو فاروق لغاری نے بطور صدر برطرف کر دیا اور وہی پرانے کرپشن کے الزامات لگائے ۔ پھر 1997ء میں نوازشریف انتخابات جیت کر وزیراعظم بن گئے۔ اس وقت چونکہ 58 (2)(b) کو آئین سے نکال دیا گیا تھا لہذا جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999ء میں مارشل لا لگا دیا۔ اس سارے عرصے پر غور کریں تو حکومتیں تو بڑی حد تک کمزور رہیں مگر سیاسی عدم استحکام اور بے چینی کی وجہ سے ملک کا نقصان ہوتا رہا۔ لہٰذا جب بھی ہم یہ منصوبہ بناتے ہیں کہ جمہوریت کمزور رہے اور کمزور حکومتیں ہی معرض وجود میں آئیں تو اس سارے سیاسی منظر کو ضرور سامنے رکھنا چاہئے۔ہر انتخابات جو پیپلزپارٹی جیت گئی یا ہار گئی میں مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح اس کو نقصان پہنچایا جائے اور کنٹرول کیا جائے۔ اسی طرح یہ بھی کوشش رہی کہ کس طرح نون لیگ کو کئی الیکشنز میں ملیا میٹ کر دیا جائے جیسے کہ2002ء اور 2008ء میں کیا گیا ۔بالکل اسی طرح کی مہم جاری ہے کہ اس جماعت کو چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں کس طرح کم سے کم سیٹیں لینے دی جائیں حالانکہ تمام قومی اور بین الاقوامی سروے بتا رہے ہیں کہ نون لیگ سب سے مقبول جماعت ہے اور نوازشریف سب سے پاپولر لیڈر ہیں۔ بینظیر بھٹو ، آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے کئی رہنمائوں نے بڑے لمبے عرصے تک مصیبتیں برداشت کی ہیں، یہ ان کی عوام میں پذیرائی کی وجہ ہی ہے کہ وہ ابھی تک سیاسی طور پر موثر ہیں۔ اسی طرح نوازشریف، شہبازشریف اور نون لیگ کے کئی دوسرے لیڈروں نے پرویز مشرف کے زمانے میں بڑا سخت رگڑا کھایا ہوا ہے مگر وہ سیاسی طور پر نہ صرف زندہ ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہیں۔ رہی بات پاکستان تحریک انصاف کی یہ تو دودھ اور مکھن سے پلی بڑھی ہے اسے سیاسی میدان میں ابھی تک کسی امتحان کا سامنا نہیں کرنا پڑ۔ جب کبھی ایسا وقت آیا تو پھر دیکھا جائے گا کہ مزاحمتی سیاست کیا ہوتی ہے۔ ابھی تک تو یہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کو کرپشن اور بری گورننس کے طعنے دے دے کر ہی اپنی سیاست چمکا رہی ہے اور ساتھ ساتھ بڑے عرصے سے عمران خان یہ بھی خواب دیکھ رہے ہیں کہ وہ ایسا کر کے وزیراعظم بھی بن جائیں گے۔
پچھلے تمام عام انتخابات کے مقابلے میں اس بار انتخابی مہم کافی لمبی اور بھر پور ہے۔ کچھ فصلی بٹیروں کا ایک جماعت سے دوسری میں جانا بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ہر الیکشن سے قبل اس طرح کی موومنٹ ہوتی ہے جس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک تو ایسا ماحول ہوتا ہے جو جان بوجھ کر پیدا کر دیا جاتا ہے کہ فلاں جماعت اگلے انتخابات جیت جائے گی۔ ایک اور وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوٹوں کو اپنی مقامی سیاست میں مخالفین کی وجہ سے دوسری جماعت میں جانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ جس جماعت کے ساتھ وہ اس وقت نتھی ہیں اس کے جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پنجاب میں چونکہ پیپلزپارٹی کی حالت اب بھی 2013ء کے انتخابات سے زیادہ مختلف نہیں ہے لہٰذا اس کے کئی رہنما تحریک انصاف میں جاچکے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ ایسے تمام عناصر پیپلزپارٹی کی حکومت میں وزیر اور مشیر رہے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے بارے میں جو کچھ مرضی کہیں اور جس قسم کے چاہے الزامات لگائیں ایک بات جو بہت قابل ستائش ہے وہ یہ ہے کہ اس میں کسی لیڈر کو یہ شکایت نہیں ہوتی کہ اس کی جماعت کے سربراہان، آصف زرداری اور بلاول، تک رسائی نہیں ہے۔ وہ جب چاہیں ان سے مل سکتے ہیں اور انہیں جماعت میں بڑی عزت دی جاتی ہے۔ نون لیگ میں ہمیشہ یہ مسئلہ رہا ہے کہ اس کے بہت سے رہنمائوں کو یہ شکایت رہی کہ نوازشریف تک ان کی رسائی نہیں ہے۔ تحریک انصاف میں تو یہ بالکل نہیں ہے کیونکہ وہاں تو ایک مخصوص گروپ عمران خان کے گرد موجود ہے۔ پیپلزپارٹی کے کچھ رہنما، جو ندیم افضل چن سے قبل تحریک انصاف میں ہجرت کر گئے ہیں، سے پوچھ لیا جائے تو عمران خان کے رویے کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ تاہم وہ اب مجبور ہیں کہ آئندہ انتخابات تک اسی جماعت میں رہیں اور اسی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں۔ اگر وہ اس وقت چھوڑ دیتے ہیں تو ان کا یقیناً بہت مذاق بنے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین