• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کسٹم اور انٹیلی جنس اسمگلنگ کا خاتمہ کرنے میں ناکام

کسٹم اور انٹیلی جنس اسمگلنگ کا خاتمہ کرنے میں ناکام

اسمگلنگ کا کاروبار سنگین جرم ہے اور اسے روکنے کے لئے کسٹم اور کسٹم انٹیلی جنس کے محکمے قائم ہیں مگر ضلع سکھر سمیت بالائی سندھ میںغیر ملکی اشیاء کی خرید و فروخت کا کاروبار عروج پر ہے اور سکھرڈویژن اسمگل شدہ مصنوعات کی بڑی منڈی بن گیا ہے، جس کے باعث قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے، چیک اینڈ بیلنس کا کوئی سسٹم نہ ہونے کے باعث مارکیٹیں نان کسٹم پیڈ اشیاء سے بھری ہوئی ہیں اور عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا اسمگل شدہ اشیاء کی خرید و فروخت کرنےوالوں کے خلاف کارروائی کرنا کسٹم اور کسٹم انٹیلی جنس کے افسران کے دائرہ کار میں نہیں آتا ؟ اگر ان کی ذمہ داری ہے تو پھریہ کاروبار کیوں جاری ہے۔؟ 

سکھرڈویژن تین صوبوں سندھ، پنجاب اور بلوچستان کےکی سرحدوںپر واقع ہے اور سکھر شہر میں متعدد اشیاء کی ہول سیل مارکیٹیں ہیں، جن میں یومیہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے، سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے مختلف اضلاع سے لوگوں کی بڑی تعدادمختلف اشیاء کی خریداری کے لئے سکھر آتی ہے۔ نشتر روڈ، ریشم گلی، چمٹا گلی، لیاقت چوک، بیراج روڈ، گھنٹہ گھر چوک، موبائل مارکیٹ، الیکٹرونک مارکیٹ، ڈھک روڈ، پان منڈی، شاہی بازار، اسٹیشن روڈ، گھنٹہ گھر سمیت دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر ہول سیل کا کاروبار ہوتا ہے۔ ان تجارتی مراکز کو اسمگل شدہ مصنوعات کا کاروبار کرنے والوں نےاپنی آماج گاہ بنالیا ہے اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سےکروڑوں روپے کاغیر ملکی سامان سکھر کی مارکیٹوں میں لایا جاتا ہے اور یہاں سے مختلف چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں فروخت ہوتا ہے، جس سے حکومت کو ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ 

اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ اسمگل شدہ اشیاء بلوچستان سے مسافر ٹرینوں، بسوں، پبلک و گڈز ٹرانسپورٹرز سمیت مختلف گاڑیوں کے ذریعے سکھر کی ہول سیل منڈیوں تک پہنچتی ہیںمذکورہ غیر ملکی سامان سکھر کی مارکیٹوں میں کھلے عام فروخت ہوتا ہے۔ متعلقہ اداروں کواس غیر قانونی تجارت کاعلم رہتا ہے لیکن وہ ان کی خرید و فروخت کا کاروبارکرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے جب کہ محکمہ کسٹم اور کسٹم انٹیلی جنس اس معاملے میں غیر فعال نظر آتے ہیں۔

کسٹم اور انٹیلی جنس اسمگلنگ کا خاتمہ کرنے میں ناکام

سکھرکےتجارتی مراکز میں غیر ملکی اشیاء کی بھرمار ہے ۔کاسمیٹکس، الیکٹرونکس کا سامان، گریس، گاڑیوں کے پرزہ جات، تیل، ٹائرز، موبائل فون، صابن،گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس، جیولری، کمبل، سگریٹ ودیگر اشیاء روزانہ مارکیٹوں میں فروخت کے لیے لائی جاتی ہیں اور یہاں سے یہ اسمگل شدہ سامان خیرپور، گھوٹکی، نوشہروفیروز، نواب شاہ، دادو سمیت سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں بھیجا جاتا ہے۔ 

اس وقت بھی کروڑوں روپے کا اسمگل شدہ مال سکھر کی منڈیوں میں موجود ہے، اگر آپ موبائل مارکیٹ میں موبائل کی خریداری کے لئے جائیں تو وہاں ہمہ اقسام اور قیمتوں کے موبائل موجود ہیں، خاص طور پر اسمارٹ فون جو کہ کافی مہنگے ہوتے ہیں۔ اسمارٹ فون کی خریداری میں بغیر وارنٹی کے جو موبائل فون فروخت کیے جاتے ہیں وہ وارنٹی والے موبائل فون سے 5سے 10ہزار روپے کم قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں، اسی طرح چھوٹی اقسام کے موبائل و دیگر اسمگل شدہ اشیاء جن کی وارنٹی نہیں ہوتی وہ وارنٹی والی اشیاء سے کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں، یہ صرف ایک مارکیٹ کی مثال ہے اسی طرح کی درجنوں مارکیٹوں میں اسمگل شدہ سامان بغیر کسٹم ڈیوٹی کے کھلے عام فروخت ہورہا ہے، جسے روکنے والا کوئی نہیں، کسٹم اور کسٹم انٹیلی جنس کے افسران اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرنے سے قاصر ہیں جوکہ ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے؟کسٹم اور کسٹم انٹیلی جنس کی عدم توجہی کے باعث اسمگلنگ کا کاروبار کرنے والے پہلے ان اشیاء کے ساتھ بھاری مقدار میں پان پراگ گٹکا اور دیگر مصنوعات بھی ان منڈیوں میں لے کر آتے تھے تاہم پولیس کی جانب سے گٹکا اور پان پراگ سمیت دیگر نشہ آوراشیاء کی فروخت کے خلاف کریک ڈائون اور متعدد افراد کی گرفتاری کے بعد ان اشیاء کی اسمگلنگ رک گئی ہے۔

گزشتہ دنوں بھی سکھر پولیس نے نشہ آو رمصنوعات پان پراگ، گٹکا اسمگل کرنے کی ایک بڑی کوشش کو ناکام بنایا، گٹکے سے بھرا ٹرک پکڑ کر ڈرائیور اور کنڈیکٹر کو گرفتار کرلیا۔ برآمد ہونیوالے گٹکے کی مالیت تین سے چار کروڑ روپےبتائی جاتی ہے۔ ایس ایس پی سکھر امجد احمد شیخ کے مطابق پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ ایک ٹرک میں بھاری مقدار میں پان پراگ گٹکے کو اسمگل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس پر پولیس کی خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی، جس نے تماچانی تھانہ کی حدود میں کارروائی کرکے پان پراگ گٹکے سے بھرا ہوا ٹرک پکڑ لیا۔

اس میں 260 بوریوں میں پان پراگ گٹکا چھپا کر رکھا گیا تھا، ٹرک چمن سے کراچی جارہا تھا۔اتنی بڑی کارروائی اس سے قبل کسی بھی ادارے کی جانب سے دیکھنے میں نہیں آئی، کسٹم اور کسٹم انٹیلی جنس کی جانب سے اگر کبھی کبھار روایتی کارروائی کی بھی جاتی ہے تو وہ صرف کاغذوں کا پیٹ بھرنے کے لئے ہوتی ہے، 2سے 3ماہ میں ایسی خبر آجاتی ہے کہ کسٹم انٹیلی جنس نے کارروائی کرتے ہوئے اسمگل شدہ اشیاء ضبط کرلی ہیں تاہم آج تک یہ غیر قانونی کاروبار کرنے والوں کے خلاف کوئی بڑا آپریشن نہیں کیا گیا۔ 

تقریباً 6ماہ قبل کسٹم انٹیلی جنس نے ایک کارروائی کے دوران مسافر ٹرین پر چھاپہ مارکر 2کروڑ روپے مالیت کے موبائل فون برآمد کئے تھے۔ اگر وفاقی حکومت اس جانب توجہ دے اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے، اسمگلنگ کی روک تھام میں ناکام افسران کے خلاف کارروائی کی جائےتو حکومت کو سالانہ کروڑوں روپے کسٹم ڈیوٹی کی مد میں ریونیو حاصل ہوسکتا ہے

تازہ ترین
تازہ ترین