اسلام آباد(نامہ نگار،جنگ نیوز) سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان کے اندر ریاست اور حکومتوں نے اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ پاکستان کے اندر علم،سوچ، فکر اور شعر و شاعری کو سرے سے ختم کیا جائے۔آج ہم ایسے معاشرے میں گھوم پھر رہے ہیں جہاں فرقہ واریت ، عدم برداشت اور دہشتگردی ہے۔ ہفتہ کو پروین شاکر ٹرسٹ اور بک کونسل کے زیر اہتمام سالانہ ’’عکس خوشبو ایوارڈز‘‘ کی تقریب سے خطاب میں رضا ربانی نے کہا کہ میں اپنی والدہ کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے بچپن سے ہی مجھے مطالعے کی عادت ڈالی۔ میرے والد کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کو انہوں نے قائداعظم کی زندگی پر 5کتابیں لکھیں جس کا اثر مجھ پر بھی پڑا۔ آج جو کام پروین شاکر ٹرسٹ کر رہا ہے یہ کام ریاست کے کرنے کا ہے۔ ماضی میں کافی شاپس ہوا کرتی تھی جہاں بیٹھ کر لوگ بحث و مباحثہ کرتے تھے۔ ان کافی ہائوسز کو پلان کے تحت ختم کیا گیا اور بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی اس پالیسی کو جاری رکھا۔ہم نے اپنے معاشرے کے اندر سے ایک منصوبے کے تحت سوچنے سمجھنے کی عادت کو ختم کیا ہے تاکہ ایسے لوگ پیدا ہوں جو سوجھ بوجھ سے عاری ہوں اور اشاروں کے انتظار میں زندگی گزار دیں۔معاشرے میں ادب کی ترویج اور ادیبوں کی حوصلہ افزائی کے ذریعےپروین شاکر ٹرسٹ اور بک کونسل مکالمے اور برداشت کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔تقریب میں رضا ربانی کو ان کی کہانیوں کی کتاب انوسبل پیپل (غیر مرئی لوگ) کے لئے 2017 کے بہترین فکشن ایوارڈ کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے۔شاعری کیلئے سعید شارق کی کتاب سایہ 2017 کی بہترین کتاب قرار پائیں۔تقریب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، اپوزیشن لیڈرسید خورشید شاہ، سینیٹر مولا بخش چانڈیو، سابق وفاقی سیکرٹری نرگس سیٹھی، سلیم سیٹھی، سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اس تقریب میں شرکت کے بعد انہیں 1960 کی دہائی کے وہ دن یاد آگئے ہیں جب معاشرے میں مکالمے کو فروغ دیا جارہا تھا اور مخالف رائے کو تحمل اور برداشت سے سنا جاتا تھا۔ یہ وہ خوشگوار دن تھے جب میری ماں اپنی والدہ کے ہمراہ سینما دیکھنے جاتی تھیں ، فیض احمد فیض اور جون ایلیا کا کلام لوگ بلاخوف و خطر سنا کرتے تھے اور ہماری جامعات میں کلاشنکوف نہیں بلکہ بحث و مباحثے ہوا کرتے تھےاور پاکستان میں انتہاپسندی نے جڑیں نہیں پکڑی تھیں۔ اس موقع پر رضا ربانی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ 1960 کی دہائی کا پاکستان چاہتے ہیں۔ایسا پاکستان جہاں مکالمہ کو فروغ دیا جائے۔