• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے تمام مہذب ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی آئین اور لیبر قوانین کے تحت14سال سے کم عمر بچوں سے جسمانی کام لینا جبری مشقت کی ذیل میں آتا ہے جو قانوناً ممنوع۔ اس کے باوجود یہ امرنہایت تشویشناک ہے کہ ہمارا ملک بچوں سے جبری مشقت لینے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ بچوں سے جبری مشقت لینا ان کے ذہنی، جسمانی، اخلاقی اور سماجی استحصال کے مترادف ہے۔بچپن کی عمر علم حاصل کرنے، سیکھنے، اچھے برے کی تمیز، اپنی اقدار کو سمجھنے اور کھیل کود کی ہوتی ہے۔ معصوم بچوں سے یہ سب کچھ چھین لینا صریح ظلم ہے جس کا نتیجہ نسلوں کی تباہی کی شکل ہی میں نکل سکتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے شہری و دیہی علاقوں میں بچوں سے جبرہی مشقت کا یہ ظالمانہ سلسلہ پابندی کے باوجود بدستور جاری ہے۔ ان دنوں پنجاب کے بعض اضلاع میں بھٹہ مالکان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے ۔ بچوں سے مزدوری کروانے پر کئی بھٹہ مالکان کے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے ہیں۔ یہ اچھی پیشرفت ہے لیکن ضروری ہے کہ محض پنجاب نہیں بلکہ ملک بھر میںیہ کارروائی ہو اور اسے پوری طرح نتیجہ خیز بنایا جائے۔ مزید برآں صرف بھٹے نہیں،چوڑیاں بنانے کے کارخانوں، قالین بافی کے مراکز، ورکشاپوں، ہوٹلوں، گھریلو صنعتوں، لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والے بچوں کی پاکستان میں موجودہ تعداد 80 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ واضح طور پر غربت اور بے روزگاری ہے۔ پس ماندہ طبقات میں گھر کے سربراہ کی بے روزگاری یا گھرانے کی ضروریات سے کم آمدنی کی بناء پر بچوں کو بھی کمانے کے لیے گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ لہٰذا روزگار کے مواقع میں ضرورت کے مطابق اضافہ ہماری لازمی ضرورت ہے تاکہ گھر کے بڑوں کی آمدنی اتنی ہو کہ بچوں کو ملازمت کے لیے گھروں سے نہ نکلنا پڑے۔نیز 14 سال سے بڑے بچوں کے لیے بھی مناسب اجرتوں، اوقات کار اور تعلیم و علاج معالجہ سمیت حقوق کا تعین اور قانوناً تحفظ کرنا حکومت کی ناگزیر ذمہ داری ہے ۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین