• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے شک ریکارڈ ٹوٹنے کے لئے ہی بنتے ہیں ’’ہر سیر پر کوئی سوا سیر‘‘ بعض ریکارڈ ایسے بھی ہیں جنہیں کوئی دوسرا نہیں توڑ سکا، وہ بھی ٹوٹ گئے مگر بنانے والے کے اپنے ہاتھوں، پاکستان کی تاریخ میں 30اکتوبر 2011ء مینار پاکستان کے قریب تحریک انصاف کا جلسہ ایسا ہی ریکارڈ تھا جو سارے حریفوں کے لئے ایک کھلا اور بڑا چیلنج بن کر موجود رہا مگر
کون ہوتا ہے حریفِ مے مرد افگن عشق
کوئی اس چیلنج کو قبول نہ کر سکا سارے حریف، حلیف اس میدان سے کتراکے گزرنے لگے، مبادا کوئی ان کا تقابل کرنے لگے آخر کار ساڑھے چھ برس کے طول، طویل انتظار کے بعد ریکارڈ بنانے والے عمران خاں نے تحریک انصاف کی 22ویں سالگرہ یا 23ویں یوم پیدائش پر بنا بنایا ریکارڈ اپنے ہاتھوں توڑ ڈالا۔29اپریل 2018ء بروز اتوار بننے والا ریکارڈ شاید کوئی نہ توڑ سکے۔ سوائے اس کے کہ عمران خاں تحریک انصاف کی کامیابی کا جشن منانے کے لئے اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کو یہاں جمع ہونے کے لئے پکارے۔حالیہ جلسہ تحریک انصاف کے روایتی جلسوں سے کچھ مختلف بھی تھا مثلاً تعداد، نظم وضبط، سنجیدگی، مستقبل کا ٹھوس لائحہ عمل اس کی الگ پہچان بن گیا۔بھلے تحریک انصاف کے پاس روٹی، کپڑا، مکان طرز کا پرفریب نعرہ نہ ہو مگر وہ ایک مکمل نظریہ اور اس نظریے کو عمل میں لانے کا ٹھوس پروگرام اور ارادہ رکھتی ہے۔ عمران خاں کے پاس بالکل نئی اور ناتجریہ کار ٹیم تھی، اس کے باوجود کے پی کے میں اس کی کارکردگی، تجربہ کار اور آزمودہ سیاست دانوں کے مقابلے میں نمایاں رہی۔ خیبرپختونخوا میں اپنی مدت حکومت کے اختتام پر، اس کے پاس کہنے اور دکھانے کو بہت کچھ ہے مگر اس نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے بیس ممبران اسمبلی کے خلاف کارروائی کرکے اپنے ارادے اور طرز عمل کو سب پر واضح کر دیا کہ حکومت قانون کی حکمرانی اور عوامی خدمت کے لئے ہو گی، ذاتی فائدے کی اس میں کوئی گنجائش نہیں۔ اس نے پرانے دوستوں اور نئے شریک سفر سب کو پیغام دیا کہ پارٹی کے نظم وضبط اور سیاسی پروگرام کی راہ میں کوئی رکاوٹ قبول نہیں کی جائیگی۔ گندگی صاف کر دی جائیگی اسے خوشنما قالین کے نیچے نہیں چھپایا جائے گا۔
میدان جنگ ہو یا سیاست کا معرکہ اس میں اپنی طاقت اور صلاحیت کے ساتھ حریف کی کمزوریوں سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے درست اندازے اور صحیح تجزیئے کی ضرورت ہے۔ دشمن کی صفوں میں ابتری پھیل جائے، ان کی جمعیت منتشر ہونے لگے تو یہ کاری ضرب لگانے کا اصل لمحہ ہے۔ حریف صفوں میں کھلبلی نمایاں اور انتشار واضح ہے، اس پر قیادت کا بحران اور دو عملی اسے مفلوج بنائے دیتی ہے۔ ہوائوں کا رخ جاننے کےلئے اونچی چھتوں اور ہوائی اڈوں پر ’’باد نما‘‘ لگائے جاتے ہیں، اسی طرح سیاست کی سمت جاننے کےلئے خفیہ کی رپورٹیں، ٹیلی ویژن میزبانوں کے تجزیئے، انجانے ٹیلی فون پیغامات کی افواہیں، اخبارات کے مضامین سب غلط ہو سکتے ہیں، دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن ’’پاکستان سول سروس‘‘ کے ردعمل پر نظررکھنے والے سیاسی ہوائوں کے رخ کا درست اندازہ کرنے میں کبھی ناکام نہ ہونگے۔
2013ء انتخابات سے پہلے اور اس دوران سینہ تانے، گردن اٹھائے، فائلیں بغل میں لئے، دن کی روشنی میں طعنوں اور اشاروں سے بے نیاز نگران حکومتوں کے حکم کو حقارت سے نظرانداز کرتے ہوئے ’’سیدھی قطار‘‘ میں رائیونڈ کو روانہ تھے آج اپریل 2018ء کے آخری دنوں میں گویا کہ ’’روز قیامت ہے ‘‘ ہاتھ، پائوں، آنکھیں، کان اپنے ہی خلاف گواہی دینے پر تلے ہیں۔تحریک انصاف کو جلسے کی اجازت سے انکار کے بعد انتظامیہ نے اس کی حفاظت کے لئے جس خلوص سے حصہ لیا وہ اور اس کے علاوہ چیف سیکرٹری پنجاب کا پانی اور دیگر کمپنیوں کے بارے رضاکارانہ سچ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا سینے پر NOMOREکا بیج توقیر شاہ کا باقاعدہ نوٹس موصول ہوئے بغیر محض ذرائع ابلاغ سے ملنے والی خبر پر سپریم کورٹ میں پیشی، آئی جی پنجاب کا وزیروں، مشیروں، اسپیکر اور دیگر سے سیکورٹی واپس لینے کی پھرتی، پنجاب پولیس کے اہلکاروں کی رائیونڈ محلات سے خفیہ کیمرے اور سرچ لائٹ اتارنے میں پھرتی، مال روڈ سے خادم اعلیٰ (چاکر اعظم) کی تصویریں غائب کرکے جس طرح بے رونق کیا گیا یہ سب آنے والے دور کی دھندلی تصویر نہیں بلکہ ’’جلی حروف میں لکھا نوشتہ، دیوار ہے ‘‘
فاتح کی للکار اور مفتوح کے نوحے میں وہی نسبت ہے جو شیر کی دھاڑ اور میمنے کے ممیانے میں ہے۔
29اپریل گزرگیا،2مئی کو ریاست بہاولپور سے بھی سننے کو کچھ ملے گا جس کے بعد سب سمجھ لیں گے کہ شیر کی دھاڑ کہاں سے اٹھی اور میمنے کی منت و زاری کدھر سے آئی؟
وہ دن بھی تھے جب تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد کے جلسے کے لئے فیصل آباد سے نکلے تو موٹر وے پر داخلہ بند تھا، پرانی سڑک پر جانا چاہا تو پولیس نے راہ روکی، شہر بھر کے پٹرول پمپ، قناتیںلگا کر ڈھک دیئے گئے تھے۔ ہنگامی حالت کےلئے بھی ایک بوند تک دستیاب نہ تھی۔ ٹرانسپوٹروں نے وصول کئے کرائے واپس کر دیئے۔ بسیں ویگنیںپولیس نے قبضے میں لے لیں۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کے ایک افسر نے کہا ایک ایک بس ویگن بند کرنے کا حکم ہے، اسلام آباد جانا ناگزیر ہو تو فیصل آباد موٹروےکے راستے پر نہ جائیں وہاں چڑیا بھی پر نہ مارے گی، شہر بھر، بڑی شاہراہوں اور موٹر وے پر کہیں پٹرول نہیں ملے گا۔ ذاتی کار میں دو سے زیادہ سواروں کو جانے کی اجازت ہرگز نہ ہو گی۔ اسلام آباد کی راہ پر تو بالکل نہیں صرف ایک کار میں دو سوار جا سکیں گے وہ بھی لاہور کی طرف۔ چنانچہ ہم دو کار سوار ملت روڈ کی طرف سے موٹر وے پر آئے طویل انٹرویو کے بعد جانے کی اجازت ملی، ساہینوالہ ریسٹ ایریا میں صرف پانچ سو روپے کا پٹرول ملا، بصد مشکل بھیرہ پہنچ پائے، قسمت نے یاوری کی ایک جان پہچان والے پولیس افسر ڈیوٹی پر تھے ان کی سفارش سے پٹرول ملا، موٹر وے پر ’’دیو‘‘ کا راج تھا، بندہ نہ بندے کی ذات، ویگن، بس تو دور کی بات ٹرک تھے نہ کاریں، ہو کا عالم، ایک کار اسلام آباد کی راہ پر، موٹر وے سے باہرنکلے رستہ ندارد خجل خوار ہوکر واپسی کی راہ لی کہ
پاشکستہ پہنچ نہ سکا قافلے تلک
29اپریل 2018ء اتوار کا دن، جلسے کی اجازت کے بغیر جلسہ اس قدر ہوا، ٹرانسپورٹرز نے خوش دلی سے آدھے کرایہ پر بسیں پیش کیں پیشگی کرایہ وصول نہ کیا، پولیس مزاحم ہوئی نہ موٹر وے اور دوسری سڑکوں پر سرکار نے رکاوٹ کھڑی کرنے میں تیزی دکھائی نہ دلچسپی لی، پھر بھی دوسرے شہروں سے آنے والی ٹرانسپورٹ کا بڑا حصہ ’’اندھا دھند‘‘ رش کی وجہ سے پنڈی بھٹیاں ٹول پلازے پر پھنس کے رہ گیا، جو بچ نکلے وہ راوی پل پر اٹک گئے۔فیصل آباد، سرگودھا، ٹوبہ وغیرہ سے آنے والے قافلے زیادہ تر لاہور کو چھوئے بغیر واپس ہوئے۔ پھر بھی خوش اور آسودہ کہ ان کی کوشش ناکام نہ تھی جو پہنچ نہ سکے، ان کے مقابلے پہنچ جانے والوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔
انہوں نے اپنا قائم کردہ ریکارڈ توڑ ڈالا ایک نیا ریکارڈ بنانے میں کامیاب ہوئے کہ کوئی حریف اگلے دس برس شاید اس کو چھو نہ سکے۔ چچازاد نے دوپہر ساڑھے بارہ بجے یعنی جلسہ شروع ہونے سے دس گھنٹے اور ختم ہونے سے بارہ گھنٹے پہلے جلسہ گاہ کے ایک کونے میں خالی کرسیوں کی تصویر بھیجی عنوان تھا ’’جلسی ‘‘ خالد بھائی نے فون پر آنے والا پیغام سب کو دکھایا اور یوں گویا ہوئے جلسی نہیں ’’جیلسی ‘‘(Jealousy)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین