• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یکم مئی محنت کشوں کا عالمی دن

خورشید احمد (جنرل سیکرٹری)

آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین

یکم مئی محنت کشوں کا عالمی دن ہے اس روز تمام دنیااور پاکستان میں یہ دن جوش وخروش سے منایا جاتا ہے اور لوگ شکاگو (امریکہ ) کےمحنت کشوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے روزانہ 16,16گھنٹے غلاموں کی طرح کام لینے کے خلاف قربانیاں دے کر 8گھنٹے اوقات کار مقررکرائے۔ پاکستان میں محنت کش جلسے جلوس وریلیاں منعقد کرکے جوش و خروش سے مناتے ہیں لیکن 21ویں صدی سےزیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود آج دنیا میں آئی ایم ایف، ورلڈ بنک کی پالیسیوں کواپنانے، قومی مفادعامہ کےاداروں کو نج کاری کے حوالے کرنے اور لیبر کے حقوق کو کنٹریکٹ، عارضی ملازمت اور ان کے ضمانت شدہ حقوق و قوانی پر عمل نہ کرنے کا نظام چل رہاہے سماج میں امیر مزید امیر او غریب غریب تر ہو رہاہے۔ صنعتوں، تجرت اور زراعت میں اجارہ داری قائم ہو رہی ہے جبکہ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل نمبر3میں تحریر ہے کہ حکومت ملک میں استحصالی نظام کاخاتمہ کرے گی اور آرٹیکل نمبر 9کے تحت ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ عوام کو بنیادی ضروریات بمعہ روزگار، تعلیم، علاج معالجہ، پانی وبجلی اوررہائش کی سہولت فراہم کرے اور ملک میں سماجی انصاف پرمبنی نظام قائم کرے۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھاکہ

مکر کی چالوں سے بازی لےگیا سرمایہ دار

انتہائی سادگی سے کھا گیا مزدور مات

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھی محنت کشوںکے حقوق کے لئے جدوجہد کی اور اسمبلی میں محنت کشوں کے حقوق کے ابتدائی قوانین منظور کرائے۔ وہ انڈیا پوسٹل ورکرز یونین کے اعزازی صدر بھی منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے ٹیکسٹائل ملز کا افتتاح کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آجرکی ذمہ داری ہے کہ وہ کارکنوں کی عزت، معقول اجرتیں، سماجی تحفظ اور خوشگوارکام کاماحول مہیا کرائے کیونکہ خوش کارکن بہتر کارکردگی سرانجام دے سکتاہے۔

پاکستان کے آئین میں محنت کشوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت کے باوجود ملک کے محنت کشوں کی اکثریت کوقانون کے تحت انجمن سازی و اجتماعی سودا کاری کا حق نہیں۔ ملک کے لیبر قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابرہے۔ ملک میں صرف 572لیبر انسپکٹر ہیں۔ محنت کشوں کے لیبر قوانین کم از کم اجرت، سماجی تحفظ، کام پر حادثات سے روک تھام اور اوقات کارپر عملدرآمد، کمسن بچوں کی جبری مشقت اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمہ پر عمل نہیں ہوتا۔ حکومت نے آئی ایل او کنونشن کے تحت یہ ذمہ داری لےرکھی ہے کہوہاپنے قوانین پر عملدرآمد کرے گی اور پالیسی ساز فیصلے لینے سے قبل سالانہ قومی سطح پر سہ فریقی لیبر کانفرنس منعقد کرے گی جو کہ 2011کےبعد منعقد نہیں کی گئی۔ آئی ایل او کی رپوٹ کے مطابق پاکستان میں ٹرانسپورٹ اور کانوںمیں سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں، بڑھاپے میں کارنوں کو سوشل سکیورٹی سکیم کے تحت مفت طبی سہولت رکھنے کی بجائے بند کردی جاتی ہے۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ میں ایک کھرب 70کروڑ روپےوفاقی وزارت خزانہ میں منجمد ہیں جبکہ کارکنوںکو بچوں کی تعلیم کے لئے وظیفہ، بچی کی شادی اور موت پرخصوصی امداد کے حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ ملک میں آئندہ چند ماہ بعد عام انتخابات ہو رہے ہیں لیکن ملک کی سیاسی جماعتوں نے ملک کے محنت کشوں و غریب عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے کوئی منشور پیش نہیں کیا۔ ملک کے سرمایہ دار و جاگیردار طبقہ کی اکثریت ٹیکس ادا نہیں کرتی اوربعض نے اربوں روپے غیرملکی بنکوں میں جمع کرا رکھے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی نج کاری سے سبق سیکھتےہوئے بجلی، ریلوے، پی آئی اے،ا ملز کے قومی اداروں کو آئی ایم ایف کے دبائو پر مجوزہ نج کاری کے حوالے کرنے کی بجائے قابل اور دیانت دار انتظامیہ کے ذریعے اس کی کارکردگی میں اضافہ کرائے۔ ان اقتصادی سماجی حالات کی اصلاح کے لئے محنت کشوںکو محب الوطن عناصر و جماعتوں سے مل کر اپنی جدوجہد کو کامیاب کرنا ہوگا۔ 

تازہ ترین