• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آٹھ سال قبل 15اپریل 2010 کو اقوام متحدہ کی جاری کردہ ایک تحقیقاتی اور تاریخی اہمیت کی رپورٹ میں یہ پڑھنے کو ملا کہ پاکستان میں سیاسی قتل کے ذمہ دار ہمیشہ بچ نکلتے ہیں۔ انگریزی کا لفظ (IMPUNITY) استعمال کر کے سیاسی قتل کے محرکات، جرم کی تحقیقات، جرم کے ذمہ داروں اور قانونی نظام کے نقائص کے ساتھ ساتھ ہماری معاشرتی اور سیاسی بلوغیت پر بھی خاصا طنز تھا۔ مگر حقیقت تو ہے کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، مرتضی بھٹو، شاہنواز بھٹو اور اکبر بگٹی کی اموات کا حوالہ بھی تھا۔ یہ رپورٹ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بارے اقوام متحدہ کے اس تین رکنی تحقیقاتی کمیشن کی تھی جس کیلئے خود پاکستانی حکومت نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے درخواست کی تھی کہ وہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کروائیں۔ اس کیلئے آصف زرداری کی صدارت میں قائم پی پی پی کی حکومت نے اخراجات کیلئے فنڈز بھی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اقوام متحدہ سے تحقیقات کرانے کی اس درخواست پر پاکستانی حکومت کا جواز یہ تھا کہ اپنے ملکی اداروں سے غیر جانبدارانہ تحقیقات ممکن نہیں لہٰذا اقوام متحدہ سے غیر جانبدارانہ تحقیقات سے حقائق اور قتل کے ذمہ دار سامنے لائے جا سکیں گے۔ دسمبر 2007ء میں راولپنڈی میں انتہائی سنگدلانہ طور پر بم دھماکے سے موت کا شکار ہونیوالی بینظیر بھٹو کو دس سال اور اس بارے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو جاری ہوئے۔ 8سال گزر چکے لیکن اس تاریخی اور المناک سیاسی قتل کے بارے میں بھی وہی اصول کارفرما ہے جو لیاقت علی خان سے لیکر اکبر بگٹی کے سیاسی قتل تک کارفرما نظر آتا ہے بلکہ شہید بینظیر بھٹو کے وارثوں اور سیاسی پارٹی کو اقتدار کے پانچ سال بھی ملے تب بھی کچھ فرق نہیں پڑا۔ گزشتہ روز سابق صدر آصف زرداری اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں بینظیر بھٹو کے قتل میں ملکی اور غیر ملکی دونوں قوتوں کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے بعض اشارے کرتے ہوئے بیت اللہ محسود کے رابطوں کےبارے میں بھی مبہم انداز میں ذکر کرکے آگے بڑھ گئے۔ تاثر یہ ملا کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں لیکن کسی ضرورت یا مجبوری کے تحت عوام سے شیئر نہیں کرنا چاہتے۔ بینظیر بھٹو بیوی، بہن، ماں کے رشتوں میں منسلک ضرور لیکن وہ عوام کا ’’سبجیکٹ‘‘ اور قومی لیڈر تھیں اور آئندہ بھی رہیں گی۔ عوامی سیاست میں حصہ لینے والے لیڈروں کی زندگی کا کوئی پہلو نجی یا پرائیویٹ نہیں ہوتا۔ جب بی بی شہید کی خدمات، مشن اور شخصیت کا ذکر کر کے عوام سے ہمدردی اور ووٹ حاصل کئے جا سکتے ہیں تو پھر بینظیر بھٹو کے قتل کے محرکات اور ذمہ داروں سمیت تمام حقائق بھی عوام کی ملکیت ہیں ان کا علم عوام کو ہونا ضروری ہے۔ بی بی شہید کے قتل کے بارے حقائق و حالات جاننے کیلئے قومی اور عالمی سطح پر جو بھی کوششیں کی گئیں۔ ان کی معلومات اور رپورٹوں کے بارے میں بھی عوام کو آگاہ کرنے کا فریضہ ادا کرنا ضروری ہے۔ گزشتہ دس سال کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل ایک ایسا المیہ ہے جس کی شدت اور حدت وقت کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے مگر اس قتل کی ’’مسٹری‘‘ بدستور 2007 کی حد پر قائم ہے یا پھر بینظیر بھٹو کے سیاسی اور ذاتی لواحقین اس بات کا عوامی اعتراف کرلیں کہ بینظیر کے قتل کے ذمہ داروں تک پہنچنا اور انصاف کرنا ان کی بساط سے باہر ہے لہٰذا اس بے بسی اور حقیقت کو سمجھ کر صبر کرلیا جائے تو یہ اعتراف زیادہ مناسب ہوگا۔
عوام تو ابھی تک یہ راز بھی جاننے سے محروم ہیں کہ وہ کیا عوامل تھے کہ بی بی کے قتل کے بارے میں حالات اور حقائق جاننے کیلئے تحقیقات کی درخواست کے ساتھ اقوام متحدہ کا دروازہ کیوں اور کس کیلئے کھٹکھٹایا گیا اور اخراجات کیلئے 20لاکھ ڈالرز بھی دیئے گئے۔ لیکن جب تین رکنی اس کمیشن نے ’’فیکٹ فائنڈنگ‘‘ کا کام شروع کیا تو اس کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جس کا ذکر کمیشن کی رپورٹ میں جابجا لکھا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ سے درخواست اور طویل مذاکرات کے بعد قائم ہونے والے اس یو این کمیشن کے راستے میں رکاوٹوں کی وجہ ؟؟ 27دسمبر 2007ء کو بینظیر کے قتل کا جرم ہوا جس کے بارے میں مئی 2008 میں یو این او سے تحقیقات کی درخواست پاکستان میں قائم پی پی پی حکومت نے کی۔ پاکستان اور اقوام متحدہ کے درمیان تحقیقاتی کمیشن، دائرہ تحقیقات اور دیگر امور پر تفصیلی مذاکرات کے بعد اصولی فیصلہ ہوا تو 2فروری 2009 کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سلامتی کونسل کو خط لکھ کر منظوری لی اور 3فروری 2009 کو تین اراکین پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن قائم ہوگیا۔ چلی کے سفیر برائے اقوام متحدہ ہیرالڈ مونیز کمیشن کے سربراہ اور آئر لینڈ کے پیٹر فٹز جیرالڈ اور انڈونیشیا کے مرزوکی دارعثمان ممبر تھے۔ ان میں سے کمیشن کے سربراہ اور ایک رکن سے مجھے گفتگو کرنے کے تفصیلی مواقع بھی ملے بلکہ سربراہ سے ’’جیو/جنگ‘‘ کیلئے رپورٹ پیش کرنے کے بعد خصوصی انٹرویو ریکارڈ پر ہے۔ کمیشن کی رپورٹ بھی دنیا کے سامنے آچکی لیکن پاکستان میں پی پی پی کی حکومت نے آخر اس رپورٹ کو نہ قبول اور اس کی تعمیل سے انکار کا راستہ کیوں اپنایا؟ کیا عوام کے ٹیکس سے اخراجات ادا کر کے قائم ہونے والے عالمی کمیشن سے تحقیقات کروانا اور پھر قبولیت سے انکار کی وجوہات عوام کو جاننے کا کوئی حق نہیں تھا؟ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں وفاقی حکومت، پنجاب کی صوبائی حکومت اور مقامی راولپنڈی پولیس کی سیکورٹی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے نقائص اور غفلت کا ذکر کیا ہے تو پیپلز پارٹی کے جیالوں کی قربانی اور اوپر کی قیادت کی ناقص اور غیر ذمہ دارانہ انتظامات کی نشاندہی کی ہے۔ اس کی ذمہ داری کا تعین اور پارٹی ایکشن بالکل ندارد رہا۔ اسی طرح کمیشن نے رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ کرمنل انوسٹی گیشن پاکستان کا دائرہ تحقیقات تھا اور یہ تحقیقات صرف نچلی سطح پر مرکوز رہی اوپر کے طبقے اور درجے میں ذمہ داروں کی نشاندہی کیلئے تحقیقات نہیں ہوئی۔ غرض کہ اپنی ہی درخواست اور کوشش کے نتیجے میں قائم کئے جانے والے اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ اور سفارشات کو بے توقیری کے ساتھ رد کر کے خود پی پی پی کی حکومت نے جو جگ ہنسائی کروائی اس سے اس وقت پاکستان کے اقوام متحدہ میں سفیر حسین ہارون اور کئی دیگر چشم دید گواہ ہیں۔ سابق سفیر منیر اکرم اور متعدد اقوام متحدہ سے وابستہ پاکستانی اس صورتحال کے مختلف پہلوئوں سے واقف ہیں جبکہ پاکستان میں بھی اس دور میں اسلام آباد کے حالات و واقعات سے بھی خوب واقف ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ سابق صدر آصف زرداری محترمہ بینظیر کی امریکیوں سے ڈیل، اور مشرف سے کسی حتمی معاہدہ کے بغیر امریکہ و برطانیہ کی حکومتوں کی مدد سے پاکستان واپسی کے مضمرات پر سے بھی پردہ ہٹائیں۔ ابہام اور الزام کے عارضی فوائد کو نظرانداز کر کے قوم اور عوام کو وہ تمام تلخ و شیریں حقائق سے آگاہ کریں جو ان کے اپنے چشم دید ہیں۔ وہ امریکیوں سے بینظیر کے مذاکرات کا حصہ بھی رہے ہیں۔ وہ بینظیر بھٹو کے سیاسی اور خاندانی ورثے کے بھی امین ہیں۔ انہیں چند لمحوں کیلئے تاریخ اور قوم کے سامنے امانت دار اور غیر متنازع انسان کے طور پر محترمہ بینظیر بھٹو کے سنگدلانہ تاریخی و سیاسی قتل کے ان تمام حقائق کو بیان کرڈالنے کی ضرورت ہے جن کا وہ علم رکھتے ہیں۔ یہ ایک اچھی روایت کا آغاز بھی ہوگا اور تاریخ کی ایک بڑی خدمت بھی ہوگی۔ بینظیر شہید اور ان کی پارٹی کا امیج بھی مزید بہتر ہوگااور بلاول زرداری کا سیاسی مشن بھی آسان ہو جائے گا۔ اقتدار کی سیاست کے تقاضے درست مگر تاریخی شخصیات کے رفیق حیات اور ہم سفر ہونے کی ذمہ داریاں عوام کے سامنے سچائی بیان کرنے کی متقاضی ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین