آج کے کالم کا عنوان میں نے روزنامہ ’’جنگ‘‘ بروز منگل مورخہ یکم مئی کی شہہ سرخی سےلیا ہے۔شکریہ کہانی صرف عنوان پر ہی ختم نہیں ہوتی کہ یہ تو ’’ہزار داستان‘‘ پر بھی بھاری ہے ۔آج نہیں، کل نہیں کم از کم دس پندرہ سال بعد جب کوئی جینوئن محقق جان مار کر شریف خاندان کے عرج و زوال کا تجزیہ پیش کرے گا تو قبروںمیں لیٹے مُردوں کے بھی چودہ چودہ طبق روشن ہو جائیں گے کیونکہ یہ مہاکلاکاری، فنکاری، عیاری، مکاری، طوطا چشمی اور موقع پرستی کی دیومالائی داستان ہو گی اور ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ بہت ہی نیچے سے اٹھ کر بہت ہی اوپر پہنچ جانے کی داستان معمولی ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ عشروں پر محیط عہد حاضر میں اس جیسی دوسری مثال پوری دنیا میں موجود نہیں۔ایک ہی نسل میں پاتال سے اٹھ کر اتنی بڑی مالی اور سیاسی سلطنت قائم کر لینا مذاق نہیں معجزے سے بھی آگے کا کام ہے ۔صدیوں سے یہ محاورہ سکہ رائج الوقت ہے کہ ’’محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے ‘‘ تو کون نہیں جانتا کہ اقتدار تو بیک وقت محبت بھی ہے اور جنگ بھی تو پھر جائز ناجائز، صحیح غلط، وفا بے وفائی، اصول بے اصولی ، حرام اور حلال ، قاعدہ بے قاعدگی ،رحم بے رحمی، محبت اور نفرت، سچ اور جھوٹ، مہربانی اور سفاکی، معصومیت اور چالاکی، دوستی اور دشمنی وغیرہ سب بیہودہ، بیکار اور بکواس ہے۔پیر پگاڑہ مرحوم یونہی نہیں کہا کرتے تھے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو طاقتور ہوں تو گریبان پکڑتے ہیں، کمزور پڑ جائیں تو پائوں پکڑتے ہوئے نہیں شرماتے کہ یہی تو وہ ’’نسخہ کیمیا‘‘ ہے جسے کلید ِ کامیابی بھی کہا جاسکتا ہے۔سچ پوچھیں تو پاکستانی سیاست میں جگہ بنانے اور اپنا حصہ پانے کیلئے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ تھا بھی نہیں۔نام نہاد خاندانی اور پشتینی’’معززین‘‘ کا جتھہ اور ان کا جن جپھا، نسلی شکنجہ اتنا مضبوط، اٹوٹ، بھیانک اور گہرا پیوست تھا کہ کسی نیم خواندہ، نیم متمول سوفیصد غیر سیاسی خاندان کا ’’لڑکا‘‘ اس میں نقب لگانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا سو بھولا یملا بن کر اوپر سے نیچے تک بے رحمی سے ہر کسی کو ’’بیوقوف‘‘ بنانا، جنرل جیلانی سے جنرل ضیاء جیسے گھاگوں کو گھامڑ بنانا نواز شریف کی مجبوری درمجبوری تھی۔شروع میں ذاتی اور پھر ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال، قواعدوضوابط سے لیکر میرٹ اور پھر اداروں کو بلڈوز کرتے ہوئے ذاتی وفاداریاں خریدنا اور خود کو مستحکم کرنا اس کی ’’سیاسی عبادات‘‘ میں سرفہرست تھا۔ یہاں تک تو شاید سب قابل معافی ہوتا لیکن بنیادی جہالت کے باعث وہ دولت اور طاقت کے تمام تر سائونڈ بیریئرز توڑنے کے خبط میں مبتلا ہو گیا اور المیہ یہ کہ ’’بارہ اکتوبر‘‘ کے بعد بھی اپنے رویے ری وزٹ کرنے کے بجائے مزید ’’چوڑ‘‘ ہو گیا ۔پورے کا پورا خاندان مع درباریوں کے جوتوں سمیت 22کروڑ سروں پر سوار ’’سرکار‘‘ رعونت، تکبر کا شاہکار بن کر خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگی تو تقدیر زہریلے انداز میں مسکرائی۔ حصول اقتدار کے پہلے مراحل سے گزر کر میاں نواز شریف’’میرٹ‘‘ کے وسیع تر معنوں پر ڈٹ جاتے، سمدھی سیاست سے اجتناب کرتے، عجزانصاف اختیار کرتے تو وزارت عظمیٰ سے اگلے منصب پر بھی فائز ہوسکتے تھے لیکن آپ نے تو اپنوں کی گردنوں پر پائوں رکھ کر صاحبزادی کی تاجپوشی کا فیصلہ بھی کر لیا ....اب تقدیر کا فیصلہ سنیں!یہ شعوری طور پر بھٹو اور نہرو خاندان سے انسپائرڈ ان سے بھی آگے نکل کر 2018ءمیں سلطنت عثمانیہ، صفویہ اور چغتائیہ یعنی مغلیہ ٹائپ کوئی کام دکھانا چاہتے تھے سو کام تو تمام ہونا ہی تھا کہ اب کسی اندراگاندھی اور بے نظیر کا ہونا انہونی سمجھو۔تاریخ گھٹیا تدابیر سے آگے جا چکی جس کی انہیں تمیز نہیں۔مختصراً یہ کہ نواز شریف کے بہت سے جرائم قابل فہم بھی ہیں، قابل معافی بھی اور قابل ستائش بھی اس لئے آصف زرداری صاحب کو اپنے ان بیانات پر نظرثانی کی ضرورت ہے مثلاً....’’نواز شریف نے ہر موقع پر ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے لڑا کر خود اس سے ہاتھ ملا لیا۔ہم انہیں جتنا بھولا سمجھتے رہے وہ اس سے کہیں زیادہ موقع پرست ہیں‘‘’’نواز نے دھوکہ دیا اب بھگتے۔شکل سے بھولا عملاً چالباز ہے۔مشرف کے مواخذے اور مقدمے میں بھی ہمیں استعمال کیا ‘‘’’ہم سیاست اور نواز شریف تجارت کرتے رہے‘‘’’نواز شریف نے ہر موقع پر ہمیں بیچا‘‘’’نواز مجھے بہکاتے رہے یہ بھولا نہیں بہت چالاک ہے‘‘ہاں یہی تو برانڈرتھ روڈ برانڈ نواز شریف کا اصل روپ اور چہرہ ہے جو میں نے چند سال پہلے خود زرداری صاحب کو دکھایا بھی تھا، سمجھایا بھی تھا۔زرداری صاحب سے ان کی خواہش پر ہونے والی ون اون ون تفصیلی ملاقات میں، میں نے کہا تھا ......’’دونوں شریف نہلے پہ دہلہ ہیں ‘‘زرداری صاحب نے ہنستے ہوئے پوچھا ’’نہلہ کون اور دہلہ کون؟‘‘’’یہ فیصلہ کرنا میرے بس سے باہر ہے ‘‘ میں نے جواب دیا اور ہم دونوں لنچ کے لئے ڈائیننگ روم کی طرف چل دیئے ۔اس لنچ کی ہائی لائٹ روسٹڈ بھنڈیاں اور سندھی سٹائل کڑھی تھی۔مجھے خوشی ہے دیر بعد سہی زرداری صاحب نے ’’مجھے کیوں نکالا !‘‘کا اصلی چہرہ تو دیکھ لیا۔یہ ان کی صدارت کے آخری مہینوں کی بات ہے جس میں اب یہ ترمیم ضروری سمجھتا ہوں کہ شہباز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ خود پراعتماد کی عادت اپنا سکیں۔قبائلی بلوچ سردار کا بیٹا کتنا ہی ’’بھاری‘‘ کیوں نہ ہو سیلف میڈ مکار شہری بابو سے زیادہ چالاک نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کے کیریکٹرز کا تعین قدرت کر چکی ہوتی ہے اور قوانین قدرت اٹل ہوتے ہیں۔