• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقریباً چوتھائی صدی بعد میں ایک بار پھر اسکردو جارہا ہوں۔ بہت شمال میں ہمالیہ کے سلسلوں کے درمیان کہیں انگوٹھی کے نگینے کی طرح جڑے ہوئے اس شہر کو میں نے پہلے پہل سنہ انیس سو اکیانوے میں دیکھا تھا جب میں بی بی سی کی اردو سروس کے لئے بڑے دستاویزی پروگرام ’شیر دریا‘ کی تیاری اور تحقیق کے لئے لدّاخ کے چھوٹے سے گاؤں اُپشی سے روانہ ہوا تھا اور دریائے سندھ کا بچپن دیکھتے ہوئے اس کے کنارے کنارے چل کر مجھے ٹھٹھہ کے ساحل تک پہنچنا تھا۔ کوئی ڈیڑھ ہزار میل کے اس سفر میں کیسے کیسے مقامات آئے، میں ہی جانتا ہوں لیکن جوایک کمال کا مقام آیا وہ بھی خوب یاد رہے گا اور اِس وقت اُسی گلگت بلتستان کے شہر اسکردو کی بات ہورہی ہے۔ وہاں دوبارہ جانے کا سبب بھی خوب ہے۔ پچھلے سال مجھے اردو کے تعلق سے ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے سندھ کے شہر خیرپور جانے کا اتفاق ہوا جہاں پاکستان کے تمام ہی علاقوں سے اکابرین آئے ہوئے تھے۔ ملاقاتیں ہوئیں تو اسکردو سے آئے ہوئے مہمانوں نے مجھے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ میں نے کہا کہ خود میرا جی چاہتا ہے کہ چھبیس ستائیس سال بعد اس مقام کو دوبارہ دیکھوں اور وہا ں آباد ان لوگوں سے ایک بار پھر ملوں جن سے ایک بار کی ملاقات میرے دل و دماغ پر آج تک نقش ہے۔مگر وہاں آنے کا کوئی جواز ، کوئی سبب ہو تو چلا آؤں۔ طے یہ پایا کہ کسی معقول سبب کا انتظارکیا جائے۔ ایک دانش ور نے کیا خوب کہا ہے کہ ٹھان لیا جائے تو قدرت خود راستے نکالتی ہے۔ تو ہوا یہ کہ گلگت بلتستان کی مقامی حکومت نے اپنے علاقے میں ایک ادبی تقریب کا اہتمام کیا۔موضوع یہ تھا کہ اسکردو میں ادب ، ثقافت اور سیاحت کے فروغ کی بات کی جائے۔ اس پر خیر پور میں ملنے والی ڈاکٹر عظمیٰ سلیم اور محمد حسن حسرت صاحب نے جھٹ مجھ سے رابطہ کر کے خبر سنائی کہ لیجئے صاحب، جواز فراہم ہوگیا۔ فوراً ہی اسکردو جانا طے پاگیا اور اب میں سفر کی تیاری کر رہا ہوںاور کسی چھوٹے بچے کی طرح ان دنوں کو یاد کرکے جی ہی جی میں خوش ہورہا ہوں جو میں نے اسکردو کے باشندوں کے ساتھ گزارے تھے۔ وہ ملاقاتیں، وہ تعارف کی رسمیں، وہ دیر دیر تک باتیں، وہ علاقے کے قصے کہانیاں، وہ خواتین کے ساتھ ایک نفیس چائے خانے میں جانا جہاں اچانک کچھ علمائے دین کا داخل ہونا اور خواتین کا دوڑ کر پردے میں چلا جانا ، سارے ہی منظر لوٹ آئے۔ اس پر یاد آیا کہ گلگت اور اسکردو کے درمیان ایک معمولی سے ہوٹل میں رکا جہاں میرے لئے دال پکائی جارہی تھی۔ علاقے کے لوگوںکو پتہ چلا کہ میں آیا ہوا ہوں تو سارے کے سارے مجھ سے ملنے چلے آئے۔ دھوپ چمک رہی تھی اور نیلا آسمان اتنا صاف، اتنا پاکیزہ نظر آرہا تھا کہ میں نے لوگوں سے کہا کہ یہاں عید کے چاند کا کوئی جھگڑا نہیں ہوتا ہوگا۔ لوگ یہ سن کر چپ ہوگئے۔ پوچھا تو بتانے لگے کہ چاند ہو نہ ہو، جب تک اسکردو کے علمائے دین کا حکم نہیں آتا، ہم عید نہیںمناتے۔ اسی اسکردو میں داخل ہوتے ہی ایک جگہ لگا ہوا بورڈ نظر آیا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا’نئی روشنی‘۔ میں نے شہر کے باشندوں سے پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ کہنے لگے کہ یہ پوچھئے یہ کیا تھا؟ پتہ چلا کہ ملک کے وزیر اعظم جونیجو نے پورے ملک میں گلی کوچوں کی خاک چھاننے والے بچوں کو تعلیم دینے کا یہ نظام قائم کیا تھا اور نئی روشنی کے نام سے جگہ جگہ اسکول کھول دئیے تھے۔ نظام چل نکلا۔ اسکردو میں بھی سارے بچوں کو ایک درس گاہ مل گئی۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ نئی روشنی کے نام سے جاری ہونے والی رقم میں لوگوں نے نقب لگائی اور باقی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ سارا منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ شہر کے ایک استاد نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ ہم نے تو بڑی دیانت داری سے علم کی روشنی پھیلانے کی ٹھان لی تھی لیکن ’نیچے والوں‘ نے دغا دی۔ یہ نیچے والوں کی اصطلاح آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ اس سے مراد ملک کے تمام میدانی علاقے تھے جہاں وہ لعنت سر اٹھائے کھڑی تھی جسے آج ’کرپشن‘ کے نام سے نوازا جاتا ہے۔ مگر چھوڑئیے ان باتوں کویا میر ے ہی قول کے مطابق گولی ماریئے اور ان لوگوں کی بات کیجئے جنہوں نے مجھے سینے سے لگایا اور شفقتوں اور عنایتوں سے نوازا۔ میں نے جس کا انٹرویو کرنا چاہا وہ لے آیا گیا۔ جس سے بدلتے ہوئے وقت کا سوال پوچھا اس نے کمال کی وضاحت کامظاہرہ کیا۔ علاقے تک تاریخی سڑک کھل گئی اور کراچی کی بندرگا ہ سے ٹریفک اسکردو تک پہنچنے لگا ہے تو اس کا معاشرے پر کیا اثر پڑے گا؟ لوگوں نے اس کے جواب میں قیاس کے گھوڑے دوڑانے شروع کردئیے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ میرے اس دورے کا سب سے اہم سوال یہی تھا کہ ملک کا جو خطہ صدیوں سے الگ تھلگ جی رہا تھا اب جو دنیا کھلی ہے تو جینے کے اس چلن میں کیسا انقلاب آنے کا امکان ہے۔ کیا لوگ عید کا چاند دیکھنے کے باوجود ’جناب‘ کے حکم کا انتظار کریں گے اور کیا خواتین چائے خانے میں سب کے ساتھ بیٹھ سکیں گی یا نہیں؟اب جی چاہتا ہے از سر نو یہی سوال پوچھوں اور دیکھوں کہ مطلع چھٹا یا ابھی تک سروں پر قدامت کی گھٹا منڈلا رہی ہے۔
ادبی کانفرنس میں مجھے جو مقالہ پڑھنے کی دعوت دی گئی ہے اس کا عنوان دل چسپ ہے: عالمی ادب پر ثقافت اور سیاحت کے اثرات۔ دل چسپ میں نے یوں کہا کہ اس کا میری نصف صدی کی مشقت سے گہر ا تعلق ہے۔ میں خوب جانتا ہوں کہ ثقافت کے مشاہدے اور جہاں گشت کی نگاہ کے ادب پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ میں نے اپنے بی بی سی سے وابستگی کے دوران میں چار بڑے سفر کئے اور ان کی بنیاد پر چار دستاویزی ریڈیائی پروگرام ترتیب دئیے۔ آخری پروگرام ’ریل کہانی‘ کے لئے میں نے کوئٹہ سے کلکتے تک ریل کا سفر کیا۔ اس سے پہلے اپنے پروگرام ’شیر دریا‘ کی خاطر لدّاخ سے سندھ میں بحیرہ عرب کے ساحل تک چلا۔ اس سے قبل مقبول پروگرام’جرنیلی سڑک‘ مجھے پشاور سے بنگالہ تک لے گیا اور سب سے پہلے پروگرام ’کتب خانہ‘ کی تکمیل کی خاطر کہاں کہاں نہیں گیا۔ ان چاروں دوروںمیں ایک قدر مشترک تھی۔ میں نے نہ عمارتیں دیکھیں نہ سڑکیں، نہ پہاڑ دیکھے نہ دریا۔ میں نے صرف اور صرف انسان کا مشاہدہ کیا۔ یہی انسان میری داستان کا مرکزی خیال رہا۔ دنیامیں کہی جانے والی کوئی کہانی اتنی موثر نہیں ہو سکتی جتنی انسان کی ، اس کے سکھوں کی اور اس سے بھی بڑھ کر جتنی اس کے دکھوں کی روداددل پر اثر کرتی ہے۔ میں وہی کہانی کہنے اسکردو جارہا ہوں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین