لاہور کے پانچ روزہ انٹرنیشنل کتاب میلے میں اہل لاہور کا ذوق و شوق اور جوش و خروش دیدنی تھا۔ مجھے اسی میلے میں تین بار کتب بینی کا موقع ملا ، ہر بار کھوے سے کھوا چھلتا ہوا دیکھا۔ کیا بچے کیا بوڑھے، کیا مرد، کیا خواتین، کیا اساتذہ اور کیا طلبہ و طالبات غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کتابوں کی دید اور خرید کے لئے لپکتے ہوئے آئے اور کتابوں سے لدے پھندے واپس جاتے۔ یہ دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ بالعموم اساتذہ اور تبصرہ نگار کتاب سے بے اعتنائی اور بے رغبتی کا جورونا روتے نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی زیادہ حقیقت نہیں۔ حافظ شیرانی نے کتاب کے بارے میں بڑی خوبصورت بات کہی ہے فرماتے ہیں۔
فراغتے، و کتابے و گوشہ چمنے
یہ تینوں عناصر میسر ہوں تو پھر زندگی میں اور کیا چاہئے۔ کتاب میلے میں کتابیں ہی کتابیں تھیں، انگلستان اور امریکہ سے چھپنے والی کتابیں اور پاکستان و ہندوستان سے منظر عام پر آنے والی کتابیں۔ کہیں اردو کی کتابیں، کہیں انگریزی کی کتابیں اور کہیں عربی و فارسی کی کتابیں سبھی کتابوں میں کشش تھی پناہ تھی۔ ’’طالبان‘‘ کے عنوان سے احمد راشد کی تازہ ترین کتاب کہ جو نیویارک بیسٹ سیلر کا اعزاز حاصل کر چکی ہے، پھر بھارتی وزیراعظم کے بارے میں ’’مودی کی دنیا‘‘ کے نام سے سی راجہ موہن کی کتاب اور پھر فوج اور جمہوریت کے موضوع پر عقیل شاہ کی کتاب میں بہت سی تازہ معلومات موجود ہیں۔ سابق بھارتی وزیرخارجہ جسونت سنگھ کی کتاب کا ہندوستان سے شائع شدہ ترجمہ اتحاد سے تقسیم تک بھی شائقین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ مگر جن دو کتابوں نے میرے دامن دل کو تھام لیا وہ 2015ء کے اواخر میں شائع ہوئی ہیں۔ پہلی کتاب ’’ارمغان خورشید‘‘ ہے اور دوسری کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا!‘‘
نامور اسکالر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے دس برس نہایت محبت و محنت سے کام کیا اور ڈاکٹر خورشید رضوی کی متنوع، جامع اور باکمال شخصیت کے کارہائے نمایاں سے علمی و ادبی دنیا کو روشناس کرایا۔
ڈاکٹر خورشید رضوی اب کسی تعارف کے محتاج نہیں مگر ان کے مداحوں کو تاحد نگاہ تک پھیلی ہوئی ان کی تعلیم علم و ادب کے سارے گوشوں سے کما حقہ آ شنائی نہیں۔ قارئین کے لئے یہ خبر یقیناً نہایت دلچسپی کا باعث ہوگی کہ عالمی سطح کے ممتاز ناول و افسانہ نگار اور اردو انگریزی کے نامور کالم نگار جناب انتظار حسین نے سفر آخرت سے پہلے جو آخری تحریر قلم بند کی وہ ڈاکٹر خورشید رضوی کے بارے میں ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی مرتب کردہ تقریباً 600 صفحات پر مشتمل کتاب ’’ارمغان خورشید‘‘ کیلئےہے ۔جناب انتظار حسین نے اپنے کالم میں لکھا ہے۔ ’’ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے بتایا ہے کہ اس علم و فن کے متوالے نے کس کس بحر میں شناوری کی۔ سب سے بڑھ کر تو وہ عربی زبان و ادب کا شناور ہے… ایک مضمون محمد کاظم کا پڑھا تو حق دق رہ گئے کہ یہ آدمی ہے یا جن۔
خورشید رضوی مسلسل سات آٹھ سال دن رات کام کرتے رہے۔ اسے اسی طرح سے مکمل کیا خود عرب ماہرین اسے دیکھ کر نقش حیرت بن گئے۔ ’’ارمغان خورشید میں جناب احمد ندیم قاسمی کی طویل تحریر بھی موجود ہے وہ لکھتے ہیں۔ ’’میں سمجھتا تھا کہ خورشید رضوی ایک عمدہ غزل گو اور عربی زبان کے بڑے عالم ہیں مگر اب معلوم ہوا کہ عربی کے علاوہ انہیں اردو اور فارسی شعر و ادب کے متوازن تجزیے کا بھی کمال حاصل ہے۔‘‘ ارمغان خورشید کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ بہت سی نابغہ روزگار شخصیات نے ڈاکٹر خورشید رضوی کو بڑے بھرپور طریقے سے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ممتاز نقاد اور ادیب ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں کہ ’’خورشید رضوی کی شاعری میں کلاسیکیت اور رومانیت کا سنجوگ دکھائی دیتا ہے وہ لفظ کو تراشنے اور سنوارنے کا گر جانتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے اشعار نگینوں کی طرح لو دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چند اشعار خورشید رضوی کی انفرادیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں ؎
آنکھ میچو گے تو کانوں سے گزر آئے گا حسن
سیل کو دیوار و در سے واسطہ کوئی نہیں
یا پھر یہ شعر ؎
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
ڈاکٹر زاہد منیر نے جس طرح دس برس تک نہایت عرق ریزی کے ساتھ ڈاکٹر خورشید رضوی کی بحر بیکراں جیسی شخصیت کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے اسی سے یہ معلوم کر کے حیرت ہوتی ہے کہ کسی ایک انسان کے اندر کئی دنیائوں کی وسعت اور گہرائی سما سکتی ہے۔ ’’ارمغان خورشید‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر خورشید رضوی ایک ایسے عبقری ہیں جن کی ذات میں کئی متنوع رنگ کمال و اتمام کے ساتھ یک جا ہوگئے ہیں۔ وہ عربی زبان و ادب کے استاد ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ڈس ٹنگویشڈ پروفیسر کے نہایت معزز مقام پر فائز ہیں۔ وہ عربی میں پی ایچ ڈی ہیں۔ ہمارے ہاں عربی ادب کے ماہرین کچھ بہت زیادہ تعداد میں نہیں تاہم سید محمد کاظم اور ڈاکٹر خورشید دو نام ایسے ہیں جو عربی ادب پاروں سے اردو داں طبقے کی پیاس بجھاتے رہتے ہیں اور اب تو سید محمد کاظم اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے عربی ادب کے بارے میں دو جلدوں میں ایک تاریخ ساز کتاب مرتب کی ہے جس کی پہلی جلد عربی ادب قبل از اسلام منظر عام پر آ چکی ہے اور اہل علم و فضل اور اصحاب فکر و نظر سے داد پا رہی ہے۔
لاہور کے کتاب میلے میں جس دوسری کتاب نے پہلی ہی نظر میں مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا وہ جناب الطاف حسن قریشی کی کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا!‘‘ تھی۔ الطاف حسن قریشی گزشتہ پانچ چھ دہائیوں سے میدان سیاست کے شہسوار اور آسمان علم و ادب کا رخشندہ و تابندہ ستارہ ہے۔ الطاف حسن قریشی پامال راستوں کا راہی ہی نہیں وہ نئی دنیائیں بھی دریافت کرتا ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ جب پاکستان میں چند ادبی ماہنامے اورچند سیاسی ہفت روزے شائع ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں ایک نیا سیاسی، ادبی، سماجی اور تفریحی رسالہ دنیائے صحافت میں متعارف کرانا بہت بڑا رسک تھا تاہم دیکھتے دیکھتے قریشی صاحب کا یہ رسالہ ایسا معروف و محبوب ہوا کہ اس کی رسائی ایوان اقتدار کی غلام گردشوں سے لے کر افسر شاہی اور فوج کے مقتدر حلقوں تک نظر آنے لگی تھی۔ الطاف حسن قریشی نے اپنے ڈائجسٹ کے ذریعے انٹرویو کی صنف کو ایک ایسے انداز تحریر سے متعارف کرایا جس نے اسلوبیاتی تکنیک اور اپنے لب و لہجے کی غنائیت سے انٹرویو کو ایک خشک اور بوجھل صنف صحافت کے بجائے ایک انتہائی پرکشش صنف ادب کا رنگ و روپ عطا کردیا اور بقول سجاد میر انہوں نے انٹرویو کا کینوس بہت وسیع کرلیا تھا… گویا کہیں پھول اور کہیں کانٹے، کہیں زہر میں بجھے تیر اور کہیں شہد میں رچی باتیں، کہیں بلندی کہیں پستی بڑی روانی سے وہ اپنے قارئین کی نذر کر جاتے تھے۔
تاریخ کو اس کے حقیقی رنگ میں دیکھنا ہو تو پھر اسے تاریخ ساز یا تاریخ شکن شخصیات کی باتوں میں ڈھونڈنا چاہئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا تھا کہ آدمی کی باتوں کے پیچھے اس کا دل چھپا ہوتا ہے۔ ’’ملاقاتیں کیا کیا!‘‘ میں پاکستان اور اسلامی دنیا کی کل 23 شخصیات کے انٹرویوز شامل ہیں۔ 1960 اور ستر کی دہائی میں لئے گئے یہ انٹرویو ہماری تاریخ کے انتہائی نازک ایام کی کہانی سیاست دانوں کی زبانی بیان کرتے ہیں ۔
متنبی عربی زبان کا ایک عظیم شاعر ہے اس کا ایک شعر بے مثل بھی ہے اور اس کا تذکرہ عربی ادب میں ضرب المثل کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ذرا یہ شعر سنیے اور سر دھنئے۔
ترجمہ پیش خدمت ہے۔
دنیا میں سب سے باعزت مقام گھوڑے کی زین ہے
اور زمانے میں بہترین ہم نشیں کتاب ہے۔