کیا سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیرا عظم نوازشریف کے درمیان واقعی تنازع ہے، جسے اب 2018کے انتخابات سے قبل بعد ازقیاس تیزی سے حل کیا جارہا ہے۔ مختصر یہکہ 2008سے ایک دوسرے پر مکمل عدم اعتماد کیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو پیپلز پارٹی پر فرینڈلی اپوزیشن کا الزام لگایا گیا جوکہ اصل میں کبھی نہیں ہوا۔ حال ہی میں دونوں رہنمائوں نے ایک دوسرے کیخلاف سنگین الزامات لگائے، ان دونوں کی مفاہمت توڑنے کا ذمہ دار کون ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی -پاکستان مسلم لیگ (ن)ہمیشہ سے ’’زحمت کی شادی ‘‘میں رہے ہیں، وہ سال 2006 میں ایک دوسرے کے قریب ہوئے، جب نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے چارٹر آف ڈیمو کریسی (سی او ڈی )پر دستخط کیے۔ شریف کا اب تک یہ خیال ہے کہ اگر بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو ان کے تعلقات اس مقام تک نہ پہنچتے۔ جمہوریت کی مفاہمت میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ تیسرے فریق کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں اور اس طریقے سے جمہوری نظام بار بار ڈی ریل ہوتا گیا۔ بے نظیر دور میں عدم اعتماد کا لیول نئی بلندی پر پہنچ گیاتھا۔ پہلے سال 2008 میں جب سابق فوجی ڈکٹیٹر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف مرحوم مخدوم امین فہیم کوپی پی قیادت چلانے اور وزیر اعظم بنتا دیکھنا چاہتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک وقت میںآصف علی زرداری نے بھی ان کا نام پیش کیا لیکن فورا ً ہی واپس بھی لے لیا، 2008 تا 2018 کے اہم واقعات کو دیکھنے والوں سے حاصل تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ زرداری نے مشرف کو ایک پیغام بھی بھیجا تھا اور یہ ممکنہ صلح کیلئے تھا لیکن بعدازاں انہیں معلوم ہوا کہ سابق فوجی حکمران مرحوم مخدوم امین فہیم میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اور پی پی شرک چیئرمین کو پسند نہیں کیاجاتا۔ فہیم دونوں حلقوں کی طرف سے دبائو میں تھے اور پھر وہ ملک سے چلے گئے۔ پس منظر میں زرداری اور نوازشریف ایک دوسرے کے قریب ہوگئے اور ’’مشرف کے مواخذے ‘‘پر اتفاق کرلیا۔ لیکن دوسری طرف مشرف اور زرداری کے درمیان رکاوٹ بھی ہٹ گئی۔ دونوں میں یہ اتفاق بھی ہوگیا کہ سابق چیف جسٹس افتخار کو چھوڑ کر تمام معزول ججوں کو بحال کردیا جائے، بعض حلقوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی کہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کو بحال کیے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا، جب انہوں نے صدر بننے کا فیصلہ کیا تو انہیں بیچلر ڈگری پر مشکل کا سامنا کرنا پڑا لیکن جلد یہ معاملہ حل ہوگیا۔ زرداری روز اول سے ہی سابق چیف جسٹس کی بحالی کیلئے دلچسپی نہیں رکھتے تھے، لیکن انہوں نے مشرف کے معاملے پر شریفوں سے معاہدہ کر رکھا تھا جس میں وہ بعد ازاں کامیاب رہے۔ مشرف کے مواخذے پر ذرائع کاکہنا ہے کہ سابق فوجی سربراہ نے اپنے ساتھیوں کی مواخذے کا سامنا کرنے کی تجویز کو رد کیاتھا اور انہیں یقین تھا کہ شکست ہوجائے گی، لیکن سابق صدر نے مستعفی ہو جانے کو ترجیح دی، انہوں نے2008 کے الیکشن نتیجے پر اپنے خلاف خطر ے کو بھانپ لیا تھا، مشرف کو باہر کرنے کی کامیابی کے بعد زرداری نے ججز بحالی کے اپنے وعدے سے پیچھے ہوگئے۔ یہ شریف اور زرداری کے درمیان عدم اعتماد کی شروعات تھی، اس کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ (ن)نے اپنے وزرا کو حکومتی اتحاد سے واپس لے لیا اور ججز بحالی کیلئے مہم میں شامل ہوگئے۔ شریف کی جانب سے لانگ مارچ کا اعلان کردیاگیا اور پی پی حکومت نے پنجاب میں گورنرز رول نافذ کردیا اور ایسا کچھ خفیہ اداروں کی تجویز کے برخلاف کیاگیا۔ پی پی حکومت سال 2009 میں شریف کی قیادت میں لانگ مارچ کے وقت دبائو میں آگئی اور جسٹس چودھری سمیت تمام کو بحال کردیا۔ گورنر رول بھی ہٹا دیا گیا۔ اس بار بار ترقی کے رکاوٹ بننے میں پاکستان مسلم لیگ اور پی پی دونوں نے جیو اور جینے دو کے معاہدے پر اتفاق کیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک دوسرے کی حکومت کو مستقبل میں نہیں چھیڑا جائے گا۔ اسے عمران خان جیسے اپوزیشن رہنمائوں نے فرینڈلی اپوزیشن قرار دیا۔ جب سے شریف کا عدم اعتماد ہوا تو اسٹیبلشمنٹ میمو گیٹ میں ایک پارٹی بن گئی اور اسے ذاتی طور پر لیا اور پھر معاملہ سپریم کورٹ جاپہنچا اور افسوس سے آج تک چل رہا ہے۔ پی پی قیادت نے بعدازاں الزام عائد کیا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سازش کا شکار ہوئے ہیں جو کہ سوئس حکام کو خط نہ لکھے جانے پر ان کی توہین عدالت پر نااہلی ہوئی۔ عدالت صدر کو استثنیٰ کے باعث کچھ اور نہ کرسکی اور گیلانی کی نااہلی کے بعد کوئی کارروائی نہ ہوپائی۔ دوسری طرف زرداری نے صدر ہوتے ہوئے اپنے عہدے کو بے اختیار قرارد یتے ہوئے کریڈٹ دیاجاتا ہے اور تمام اختیارات پارلیمنٹ کو دیدیے۔ شریف اور پاکستان مسلم لیگ نوازکو اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔پیپلز پارٹی اورپاکستان مسلم لیگ (ن)دونوںمکمل عدم اعتماد کی فضا میں سال 2013 کے انتخابات میں چلے گئے۔ پیپلز پارٹی حکومت کاکردگی نہ ہونے، طالبان کی طرف سے خطرے پر سمجھتی ہے کہ الیکشن گنوا بیٹھی۔ اگست 2013 میں وفاقی حکومت نے کراچی میں دہشتگردی کیخلاف آپریشن کا فیصلہ کیا، پی پی قیادت میں سندھ حکومت اور ایم کیوایم نے بھی اس کی حمایت کی۔ دو سال کے عرصے میں چیزیں بہتر ہوتی گئیں اوروزیر اعظم نوازشریف کی نسبت پی پی کے سابق وزیر اعلی قائم علی شاہ کو اس کا کپتان بنایاگیا۔زرداری نے جیو کے سینئر اینکر سلیم صافی کو ایک انٹرویو میں اپنے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم اور اس آپریشن کے دوران نیب کی مداخلت کی مثال دی، شریف کی جانب سے جواب میں تردید کرتے ہوئے جواب دیاکہ ان کی حکومت نے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری یا نیب کی مداخلت میں کچھ نہیں کیا ہے۔آپریشن کا فیصلہ انٹیلی جنس کی ممکنہ خانہ جنگی کی رپورٹس پر کیاگیاتھا کہ اسلحے کی بڑی کھیپ پہنچادی گئی ہے۔یہ بھی کہاگیا کہ لوگوں کا نسلی بنیادوں پر اغوا اور قتل ہورہا ہے۔ ایم کیوایم وہ پہلی پارٹی تھی جس نے فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ بھی فیصلہ کیاگیا کہ دو ایپکس کمیٹیاں آپریشن کو مانیٹر کرینگی۔ ان میں سے ایک وزیر اعظم اور آرمی چیف جبکہ دوسری کی قیادت وزیر اعلی اور کور کمانڈر، ڈی جی رینجرز اور دیگر معاونت کرینگے۔ 2015 میں ایپکس کمیٹی کو ڈی جی رینجرز نے کچھ حکومتی ذرائع سے دہشت گردی کیلئے فنڈنگ کی نشاندہی کی اور اس میں دیگر حکومتی اداروں کے ساتھ فشریز کو بتایا گیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب نیب اور ایف آئی اے نے بھی چھاپوں میں حصہ لیا اور کے ڈی اے دفتر میں کارروائی کرتے ہوئے تقریباً 16 ہزار فائلیں تحویل میں لے لیں،یہ وہ پہلا وقت بھی تھا کہ جب پلاٹوں کی چائنہ کٹنگ منظر عام پر آئی۔ وہ کچھ دن پہلے ہی فرار ہوجانے والے ادارے کے سربراہ منظور کاکا کو بھی گرفتار کرنا چاہتے تھے ان کا مبینہ طور پر پی پی قیادت سے رابطہ تھا، اسی تناظر میں فشریز کوآپریٹو سوسائٹی میں بھی کارروائی کی گئی اور کچھ افسران کی گرفتار ی ہوئی۔ پہلی بار سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی نے ردعمل دیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن)حکومت اور وفاقی وزارت داخلہ پر نیب اور ایف آئی اے کو استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ لیکن جب رینجرز نے ایپکس میں بریفنگ دی کہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کو فنڈنگ حکومتی ذرائع سے ہوتی ہے۔ ایف آئی اے اور نیب نے اقدام کیاہے۔ سابق وزیرا علی قائم علی شاہ نے تحفظات کے باوجود کوئی شور نہیں کیا۔ مرکزی ایپکس کمیٹی کے ایک اجلاس میں وزیر اعظم، سابق صدر، سابق آرمی چیف کی موجودگی میں سندھ حکومت کو عملی طور پر چارج شیٹ کیاگیا۔اس کے بعد سابق کور کمانڈر کراچی نے ایک سیمینار کے دوران معاملے کو اُٹھایا، جو کہ پی پی اور سندھ حکومت میں پریشانی کی وجہ بنی۔ ایک بے داغ ذرائع نے انکشاف کیا کہ ایپکس اجلاس کے بعد زرداری نے شریف کو انجام سے خبردار کیا، اگر یہ نہ رکا تو وہ شریف کو خبردار کرتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ حکومت کو مشکل ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتار ی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن)رہنما نے میر حاصل بزنجو کو ایک پیغام کے ساتھ زرداری کے پاس بھیجا کہ عاصم زرداری کی گرفتار ی میں ان کا کچھ نہیں ہے۔ لیکن جب نوازشریف نے سال 2015 میں زرداری کے متنازعہ بیان پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جس کے بعد وہ 17 ماہ کیلئے ملک چھوڑ گئے۔ سابق صدر اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ شریف، چودھری نثار اور اسٹیبلشمنٹ نے ان کیخلاف ہاتھ ملالیا ہے۔ ایک معتبر ذرائع کاکہنا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے دور میں ایم کیوایم اور پی پی کے تحفظات کے بعد تمام کو ایک واضح پیغام گیا کہ آپریشن رول بیک نہیں ہوگا۔ سال 2016 میں رینجرز کو پنجاب میں بھی اختیارات دیے گئے اور نیب و ایف آئی اے بھی متحرک ہوگئے۔ پاناما لیکس، 28 جولائی فیصلے کے نتیجے میں نیب رینجرز سے زیادہ متحرک نظر آیا اور اب پاکستان مسلم لیگ (ن)اور نوازشریف سختی محسوس کررہے ہیں۔