• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میری پیاری امی

امّی گزشتہ برس 13مئی کو( ’’مدرز ڈے‘‘ سے عین ایک دن پہلے) خالقِ حقیقی سے جا ملی تھیں، مگر ہم ایک برس گزرنے کے باوجود بھی اُن کی موت کے سوگ سے باہر نہیں نکل سکے۔ ہر وقت اُن کا چہرہ نگاہوں میں گھومتا رہتا ہے۔ کم گو، نرم مزاج، صبر و برداشت کی مکمل تصویر، میری امّی، رضیہ سردار ہر کام’’ بسم اللہ‘‘ پڑھ کر شروع کرتیں اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنے کی تلقین کیا کرتیں۔ اُنھیں ابّو سے کس قدر محبّت تھی، اس کا کچھ اندازہ اس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے والد کو دنیا سے گئے 25,20سال ہوگئے، مگر اُن کی لائی ہوئی چیزیں یعنی کپڑے، جوتے وغیرہ امّی نے سنبھال کر رکھے ہوئے تھے اور جب تک زندہ رہیں، وہ اشیاء اُن کی الماری میں محفوظ رہیں۔

اُنھوں نے اپنے دل میں بڑے بڑے غم چُھپا رکھے تھے۔ ہمارا ایک جوان بھائی حادثے میں جاں بہ حق ہوا، تو ہمارا رو رو کر بُرا حال ہوگیا، مگر امّی نے خود پر قابو رکھا، حالاں کہ وہ بھائی سے بے پناہ محبّت کرتی تھیں۔ ابھی بیٹے کا غم تازہ تھا کہ ایک غیر شادی شدہ بیٹی ٹی بی کا شکار ہوگئی۔ امّی نے بہن کے علاج میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی اور سارا دن اُس کی پٹّی سے لگی، دیکھ بھال میں مصروف رہتیں، لیکن افسوس کہ موت جیت گئی۔ اس غم کو بھی امّی پی گئیں، مگر ابھی آزمائش باقی تھی۔ کچھ ہی دنوں بعد بڑی بہن بیوہ ہوکر امّی کے پاس آگئیں۔ 

اب باجی، اُن کے بچّوں کو سنبھالنا تھا، اُنھیں تعلیم دلوانا تھی، اُن کی شادیاں کرنی تھیں، جو ایک بہت کٹھن مرحلہ تھا، مگر اس آزمائش میں بھی وہ سُرخ رُو رہیں۔ اُنھوں نے ہر ذمّے داری انتہائی خوش اسلوبی سے ادا کی، مگر ان آزمائشوں اور مسلسل صدمات نے اُنھیں اندر سے توڑ کے رکھ دیا تھا۔ وہ بہت کم زور ہوگئی تھیں اور اکثر بیمار رہنے لگی تھیں۔ سانس کی تکلیف بھی بڑھ گئی تھی، جس کی وجہ سے نیند بھی کم آتی اور کھانا پینا بھی تقریباً چُھوٹ گیا تھا۔ بات چیت کرنا بھی کم کردی تھی۔

زیادہ تر وقت نماز اور وظائف پڑھنے ہی میں گزرتا۔ چوں کہ سب بچّوں کی شادیاں ہوچکی تھیں، اس لیے بھی وہ خود کو اکیلا محسوس کرتیں اور بیٹیوں کے آنے کا انتظار کرتی رہتیں۔ بیٹیوں کے آنے پر اُن کی خوشی دیدنی ہوتی۔ اُنھیں شروع ہی سے کوکنگ کا بہت شوق تھا، اس لیے بیٹیوں سے فرمائش کرکے کھانے بنواتیں، جو خود تو کم ہی کھاتیں، لیکن شاید اس طرح اُن کے شوق کی کچھ تسکین ہوجاتی تھی۔ امّی کوکنگ شوز بہت شوق سے دیکھا کرتی تھیں، خاص طور پر زبیدہ آپا کی بہت بڑی فین تھیں اور اُن کے ٹوٹکے نہ صرف خود استعمال کرتیں بلکہ دوسروں کو بھی بتاتیں۔ پھر وہ دن بھی آن پہنچا، جب وہ چُپ چاپ، کسی سے کچھ کہے بغیر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے رب کے پاس چلی گئیں۔ ہماری یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند کرے اور اُنہیں جنّت الفردوس میں جگہ دے ۔(آمین)

(حنا کامران،کراچی)

تازہ ترین
تازہ ترین