شریعت کی اصطلاح میں ’’یتیم‘‘ ان بچّوں کو کہا جاتا ہے، جن کے والد بہ رضائے الٰہی دُنیا سے رُخصت ہوچکے ہوں۔ عموماً یتیم بچّہ، شفقتِ پدری سے محروم ہوکر رشتے داروں اور معاشرے کے رحم و کرم کا محتاج ہوجاتا ہے۔ باپ کی موجودگی بچّوں کے لیے تحفظ، اَمان، محبّت، شفقت اور رحمت کا باعث ہوتی ہے۔ کسی گھرانے کا سربراہ، ایک باپ اپنے خاندان کے لیے سایہ دار شجر کی مانند، مضبوط محافظ، بہترین نگران، محفوظ ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے، تو اہل و عیال کی کفالت، حفاظت اور تربیت کے لیے اپنا تن، من، دھن بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا، لیکن جوں ہی اس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں۔
بچّوں کے سر سے تحفّظ کا سایہ چھن جاتا ہے۔ پورا گھر بے سہارا و بے آسرا ہوجاتا ہے۔ سگے، اجنبی بن جاتے ہیں۔ قرابت دار، نگاہیں بدل لیتے ہیں۔ پڑوسی، حقیر سمجھنے لگتے ہیں۔ شقی القلب رشتے دار بھوکے گِدھ کی طرح ان کے اَثاثوں اور جائیداد کو ہتھیانے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں اور پھر ان معصوم یتیموں پر ظلم و ستم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ زمانے کے بے رحم تھپیڑے ان بے آسرا بچّوں کو خزاں رسیدہ درخت کے ٹوٹے، سوکھے پتّوں کی طرح سماج کے سفّاک قدموں میں روندنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے اکیسویں صدی کے اس دَور میں بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے گھرانے نظر آتے ہیں کہ جہاں ناز و نعم میں پلنے والے بچّے، شفقتِ پدری سے محرومی کے بعداپنے رشتے داروں کی سرپرستی میں غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حتیٰ کہ گھروں سے بھاگ کر خانقاہوں، مزاروں اور یتیم خانوں میں پلنے والے بچّوں کی اکثریت ایسے ہی یتیم بچّوں پر مشتمل ہے۔
بلاشبہ، اسلام کا معاشرتی نظام، نسلِ انسانی کی بقاء اور عزّت وقار کا محافظ ہے کہ جس کے تحت تمام لوگوں کی طرح، یتیموں کے حقوق کا بھی خصوصی تعیّن کردیا گیا ہے۔ اللہ رَبُّ العزت نے قرآن کریم میں تیس مختلف مقامات پر یتیموں کی پرورش کے بارے میں احکامات نازل فرمائے ہیں۔ اسی طرح بے شمار احادیثِ مبارکہ ؐ بھی ہیں، جن میں یتیموں کی کفالت و تربیت پر بے پناہ اَجر اور عظیم انعام و اکرام کی بشارت دی گئی ہے۔
یتیموں سے حسنِ سلوک: یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے معنی یہ ہیں کہ ان بچّوں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جائے، جیسا اپنے سگے بچّوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ان کی تعلیم، لباس، رہن سہن، کھانے، پینے سمیت دیگر تمام سہولتوں کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ان کے ساتھ محبت، پیار و شفقت کا برتائو کیاجائے، تاکہ وہ کسی بھی طرح کی احساسِ محرومی کا شکار نہ ہوں۔ شفقتِ پدری سے محروم ان بچّوں کے ساتھ حسنِ سلوک، جنّت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ امام الانبیاء، خاتم النبییّن، سیّدالمرسلین، شاہِ عرب و عجم، سرکارِ دوعالم، رحمتِ دوجہاں، محسنِ انسانیت، سرورِ کائنات، حضور رسالت مآب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ یتیمی میں دُنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں آمد سے قریباً چھے ماہ قبل ان کےوالد ماجد، حضرت عبداللہ انتقال فرماگئے تھے اور ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 6 برس ہی کے تھے کہ والدہ ماجدہ بھی مدینے سے مکّہ واپسی کے سفر کے دوران رحلت فرماگئیں۔پھر ’’درّیتیم‘‘ کی حیثیت سے اپنے دادا، حضرت عبدالمطلب کی زیرِنگرانی پرورش پارہے تھے کہ وہ بھی رحلت فرماگئے۔ قرآنِ کریم میں اللہ اپنے محبوب ؐکو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے ’’بھلا اس (اللہ) نے آپ ؐ کو یتیم پاکر جگہ نہیں دی (بے شک دی) اور رستے سے ناواقف دیکھا، تو سیدھا راستہ دکھایا اور تنگ دست پایا، تو غنی کردیا۔ (سورۃ الضحیٰ ) اسی آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ ’’اے میرے محبوبؐ !ہم نے آپ ؐ کی یتیمی کے باوجود کفالت و سرپرستی کا انتظام کیا۔ قناعت و تونگری عطا کی، رسالت و نبوت کے عظیم منصب پر فائز کیا۔‘‘اور آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ ( اب آپ بھی دُنیا کو پیغام دے دیجیے کہ)تو تم بھی یتیم پر سختی نہ کرنا اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتے رہنا۔‘‘ (سورۃ الضحیٰ) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یتیموں کے لیے سراپا لطف و عطا، مشعل ِراہ اور مینارئہ نور تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اللہ روزِ قیامت اس شخص کو عذاب نہیں دے گا، جس نے یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک کیا۔ شفقت سے پیش آیا اور اس کے ساتھ ہمیشہ نرمی و محبت سے بات کی۔‘‘ قرآنِ کریم اور احادیثِ نبوی ؐ میں یتیموں کے ساتھ حسن ِسلوک کی بار بار تلقین کی گئی ہے۔ اللہ فرماتا ہے ’’اور ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، ہمسایوں ،رشتے داروں، اَجنبی رشتے داروں، مسافروں اور جو تمہارے قبضے میں ہوں (غلام نوکر) ان سب کے ساتھ احسان کرو۔‘‘ (سورۃ النساء ) اسی سورت میں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔ترجمہ:’’یتیموں کے بارے میں انصاف پر قائم رہو۔‘‘ سورۃ البقرہ میں اللہ کا ارشاد ہے کہ ’’جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور والدین اور رشتے داروں اور یتیموں اور محتاجوں سے احسان کرتے رہنا، لوگوں سے اچھی باتیں کہنا، نماز پڑھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا، تو چند لوگوں کے سوا ،تم سب (اس عہد سے) منہ پھیر بیٹھے۔‘‘
حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے کسی یتیم کے سر پر دستِ شفقت رکھا ا اور صرف اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے سر پرہاتھ پھیرا، تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پِھرا، ہر ہر بال کے بدلے اسے نیکیاں ملیں گی اور جس نے کسی یتیم بچّی یا یتیم بچّے سے حسنِ سلوک کیا، تو میں اور وہ جنّت میں ان دو اُنگلیوں کی طرح ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں اُنگلیوں کو ملایا) ہوں گے۔ (ترمذی، مسندِاحمد)
یتیموں کی پرورش و تربیت: اسلام نے یتیموں کی بہتر طریقے سے پرورش اور تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اپنی سگی اولاد کی طرح یتیم بچّوں کے بھی تعلیمی اخراجات اپنی استطاعت کے مطابق برداشت کریں اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کریں۔ یتیم کی کفالت اور پرورش کرنا، انہیں تحفظ دینا، ان کی نگرانی کرنا اور ان کے ساتھ بہترین سلوک کرنا ایسا صدقۂ جاریہ ہے کہ جس کے اَجر و ثواب کا اللہ نے خود وعدہ کر رکھا ہے۔
قرآنِ کریم میں ارشاد ِ ربّانی ہے ’’ اور وہ اللہ کی محبت میں مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں، ان کے نزدیک کھانا کھلانے کا مقصد صرف رضائے الٰہی ہوتا ہے اور اس کے عوض نہ کسی بدلے کے طلب گار ہیں اور نہ شکرگزاری چاہتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الدھر) حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص کسی مسلمان یتیم کی کفالت کرے گا، اللہ اسے ضرور جنّت میں داخل کرے گا۔‘‘ (ترمذی) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے سخت دل ہونے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ تم یتیم کے سر پر (شفقت و محبّت سے) ہاتھ پھیرا کرو اور مساکین کو کھانا کھلایا کرو۔‘‘ (مسندِاحمد)
یتیموں کے مال کی حفاظت:وراثت میں ملنے والے یتیم کے مال کی حفاظت اس کے کفیل کی ذمّے داری ہے، جس کے بارے میں روزِ قیامت سخت ترین پوچھ گچھ ہوگی۔ یتیموں کے مال کی حفاظت کے بارے میں اللہ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور یتیموں کی پرورش کرتے رہو، حتیٰ کہ وہ بالغ ہو جائیں۔ پس اگر تم ان میں عقل مندی دیکھو، تو ان کے مال ان کے سپرد کردو اور اسے فضول خرچی کے ذریعے نہ کھائو اور نہ ہی جلدبازی میں اُڑا لے جائو کہ وہ بڑے ہوکر اپنا مال تم سے واپس لے لیں گے اور جو غنی ہو، وہ اس سے بچے، اور جو ضرورت مند ہو، اسے چاہیے مناسب طریقے سے ان کے مال کو مصرف میں لائے۔
پھر جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو، تو اس پر گواہ بنالو اور اللہ حساب لینے والا کافی ہے۔‘‘ (سورۃ النساء)سورۃ النساء ہی میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’یتیموں کا مال ان کو واپس دو، اچھے مال کو بُرے مال سے نہ بدلو، اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھائو، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘ سورۃ انعام میں اللہ حکم دیتا ہے ’’اور یتیموں کے مال کے قریب نہ جائو، مگر ایسے طریقے سے، جو احسن ہو، یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائے۔‘‘
یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کی ممانعت: یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کوسخت ترین عذاب کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بہترین گھر وہ ہے، جہاں یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہو اوربدترین گھر وہ ہے، جہاں یتیم ہو اور اس کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہو۔‘‘ (ابنِ ماجہ)قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ترجمہ: ’’نہیں، بلکہ تم لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے۔‘‘ یعنی ان کے ساتھ وہ حسن ِسلوک نہیں کرتے، جس کے وہ مستحق ہیں۔‘‘ سورۃ الماعون میں اللہ فرماتا ہے۔ ترجمہ: ’’یہ وہی (بدبخت) ہے، جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔‘‘ سورۃ الضحیٰ میں اللہ تنبیہ فرماتا ہے ’’تو تم بھی یتیم پر سختی نہ کیا کرو‘‘ بلکہ اس کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کیا کرو۔‘‘
یتیم کا مال کھانے کی ممانعت: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے۔‘‘ (النساء) اسی حوالے سے سورئہ بنی اسرائیل میں اللہ رب العزت حکم فرماتا ہے ’’اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جائو، بجز اس طریقے کے، جو بہت ہی بہتر ہو۔ یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کو پہنچ جائے، اور وعدے پورے کرو، کیوں کہ قول و قرار کی بازپرس ہونے والی ہے۔‘‘جب یتیموں کا مال ظلماً کھانے والوں کے لیے وعید نازل ہوئی، تو صحابہ کرامؓ اس بات پر خوف زدہ ہوکرکہ کہیں وہ بھی اس وعید کے مستحق قرار نہ دے دیئے جائیں، یتیموں کی ہر چیز الگ کردی، حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی، تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہو جاتی۔
اس پر مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی۔ (ابنِ کثیر) ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں۔ آپؐ کہہ دیجیے کہ ان کی خیرخواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو، تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔ بدنیّت اور نیک نیّت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا، تو تمہیں مشقّت میں ڈال دیتا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ غلبے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ)
یتیموں کی مالی معاونت:اسلام نے ہر صاحبِ حیثیت فرد پر لازم قرار دیا ہے کہ اپنے جائز مال میں سے یتیموں کی مالی امداد کرتے رہو۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور مال سے محبت کے باوجود، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور غلام آزاد کرنے میں خرچ کرو۔‘‘ (سورۃ البقرہ)جب کہ سورئہ انفال میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ’’اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت سے حاصل ہو، تو اس میں سے پانچواں حصّہ اللہ کا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا، قریبی رشتے داروں کا، یتیموں کا، مسکینوں کا ،اور مسافروں کا ہے۔‘‘سورۃ الحشر میں اللہ فرماتا ہے ’’جو مال اللہ نے اپنے پیغمبر کو بستیوں والوں سے دلوایا ہے، وہ اللہ کے، اور پیغمبر کے، اور رشتے داروں کے، اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، تا کہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔‘‘
اسی طرح یتیم بچّے، بچیّوں کے سرپرستوں کی ذمّے داری ہے کہ وہ پرورش و کفالت کے بعد ان کی بہتر اور مناسب جگہ شادی کا اہتمام کریں، خصوصاً یتیم بچیّوں کی شادی کرنا یا ان کی شادی کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنا بڑے اَجر و ثواب کا کام ہے۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ، جو یتیموں کے ساتھ پیار و محبت اور بہترین سلوک کر کے اس عمل کو اپنے لیے جنّت کے حصول کا ذریعہ بناتے ہیں۔یاد رکھیے! یتیم کی آہیں اور بددُعائیں عرش بھی ہلا دیتی ہیں۔ روزِ قیامت ہم سب کو اللہ کے حضور ڈھائے گئے ظلم و جبر کا حساب دینا ہوگا۔
وہ کیسا بھیانک منظر ہوگا، جب ایک یتیم بچّہ روزِ محشر اللہ کے دربار میں اپنی مظلومیت و بربادی کی داستان سنا رہا ہوگا۔ اس وقت وہاں مجرم کی حیثیت سے سر جھکائے ایسے غاصب وارث بھی ہوں گے اور اس پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھنے اور سننے کے بعد آنکھیں بند کر لینے والے اس کے پڑوسی اور دیگر رشتے دار بھی ۔اور سب قہرالٰہی کے منتظر ہوں گے، جو دوزخ کی آگ کا ایندھن بننے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔