• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپی ممالک میں عوام اور پولیس کے مابین تصادم کی خبریں پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں، کبھی کبھار پولیس، وکلا اور دوسرے سرکاری ادارے بھی مختلف وجوہات کی بنا پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں، ساری دُنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب قانون نافذ کرنے اور قانون کی حفاظت کرنے والے ادارے ایک دوسرے کے مد مقابل ہوئے، اسپین میں جب صوبہ کاتالونیا کی خود مختاری اور اُسے علیحدہ ملک بنانے کے لئے ریفرنڈم کرایا گیا تو اُس وقت صوبائی پولیس نے کاتالان عوام پر تشدد کرنے سے معذرت کر لی تھی جس کی وجہ سے ہسپانوی وفاقی حکومت کو میڈرڈ سے نیشنل پولیس کے دستے بھیجنے پڑے جنہوں نے صوبہ کاتالونیا میں ریفرنڈم کے دن بارسلونا اور اُس کے گرد و نواح میں بنائے جانے والے پولنگ اسٹیشنز کا چارج سنبھالا تو صوبائی پولیس اور نیشنل پولیس بھی ایک دوسرے کے سامنے آن کھڑی ہوئیں لیکن معمولی جھڑپوں کے بعد بات ختم ہو گئی۔ دُنیا کا کوئی بھی ملک ہو جب وہاں قانون کے محافظ یا قانون کی پاسداری پر مامور ادارے جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ یہ ادارے ایک دوسرے کا حصہ ہوتے ہیں آپس میں دست و گریباں ہوں یا لڑائی مار کٹائی اور توڑ پھوڑ کے ساتھ ساتھ امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے بجائے اُسے خراب کرنے میں لگ جائیں تو اُس ملک میں انصاف کے تقاضوں کو برقرار رکھنا یا عوام الناس سے قوانین پر عمل کرانا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ جمہوری ممالک میں ایسا کرنا ناپسندیدہ عمل تصور کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں پولیس اور وکلا کے مابین ہونے والے تصادم کئی بار خطرناک صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ نومبر2013میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احاطے میں وکلا نے پنجاب کے شہروں فیصل آباد، سرگودھا، گوجرانوالہ، ساہیوال اور ڈیرہ غازی خان میں ہائیکورٹ کے بنچ بنانے کے حق میں احتجاج کیا دوران احتجاج وکلا نے سپریم کورٹ کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تاہم پولیس نے وکلا کو عمارت میں داخل ہونے سے روکنے اور انہیں منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے شیل پھینکے اور لاٹھی چارج کیا، جواب میں وکلا نے پولیس پر پتھراؤ کیا تھا، اس تصادم کے نتیجے میں کئی پولیس والے اور وکلا زخمی ہوئے جبکہ اُس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد محمد علی کو کافی چوٹیں آئی تھیں۔ وکلاکا موقف تھا کہ پولیس نے بلاوجہ لاٹھی چارج کیا جبکہ پولیس کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی ڈیوٹی پوری کی، ہماری ڈیوٹی میں خلل ڈالنے اور پتھراؤ کے جواب میں ہمیں لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ اس تصادم میں کسی ایک فریق کو قصوروار ٹھہرانا انتہائی مشکل کام تھا جو کسی سے نہ ہو سکا۔اپریل 2014 میں کوئٹہ کی کچہری میں وکلا اور پولیس کے مابین ہونے والے تصادم میں دو پولیس اہلکار اور ایک وکیل زخمی ہوا تھا اس تصادم کی وجہ سے وکلانے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جس سے عدالتوں میں زیر سماعت کیس تاخیر کا شکار ہوگئے اور سائلین سخت پریشانی میں مبتلا ہوئے۔ مئی 2015میں ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ بار کے صدر سمیت دو وکلا بھی پولیس کے ساتھ ہونے والی مڈھ بھیڑ کی بھینٹ چڑھے اُن کے قتل کا مقدمہ ایس ایچ او شہزاد وڑائچ پر بنا جو آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کاٹ رہا ہے۔ یہ لڑائی کیوں ہوئی اور اس قتل وغارت کا ذمہ دار کون تھا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب دینے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ دیکھا جائے تو پولیس اور وکلا قانون پر عملدرآمد اور عدل و انصاف کی فراہمی کے حوالے سے اہم ادارے ہیں اِن کے مابین تصادم قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔ اکتوبر 2017میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی احتساب عدالت میں پیشی کے دوران جو ڈیشل کمپلیکس کے باہر سیکورٹی کے سخت انتظامات ہونے کی وجہ سے پولیس اور وکلا کے درمیان جھگڑا اور ہاتھا پائی ہوئی جس کے نتیجے میں وکلا کی طرف سے سخت احتجاج کیا گیا اور عدالتوں کے بائیکاٹ سے سینکڑوں کیسز التوا کا شکار رہے۔ رواں ماہ یہی واقعہ فیصل آباد میں دہرایا گیا، ایس ایچ او ڈجکوٹ ملک وارث کے پاس ایک وکیل صاحب نے سفارش کی کہ وہ اُس پارٹی کو چھوڑ دے جس کی سفارش کی جا رہی ہے، دوران سفارش بحث و تکرار بڑھ گئی، ایس ایچ او نے کمال ہوشیاری سے فریقین پر 7/51دفعہ کی ایف آئی آر درج کرکے دونوں کو حوالات میں بند کر دیا۔ ایس ایچ او نے یہ کام قانون کے عین مطابق کیا تھا، وکیل صاحب اس بات پر بپھر گئے اور اگلے دن جب ایس ایچ او فریقین کو لے کر عدالت میں پیش ہوا تو وکلانے مل کر اُس باوردی تھانہ انچارج کو زدوکوب کیا جس سے پولیس مین کی وردی پھٹ گئی۔ سی پی او فیصل آباد اطہر اسماعیل نے اس واقعہ کا سخت نوٹس لیا اور وکلاکے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی گئی اُس کے بعد وکلا کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارنا قانونی چارہ جوئی تھی جو پولیس نے کی۔ وکلا کی پکڑ دھکڑ جاری تھی کہ اگلے ہی دن وکلا نے ہڑتال کی اور سی پی او آفس کا گھیراؤ کرکے توڑ پھوڑ کی۔ پولیس کی مزید نفری منگوائی گئی جس سے وکلا منتشر ہو گئے۔ سی پی او نے اپنے آفس کا گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کرنے پر ایک مزید ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔ وکلا نے ان ایف آئی آرز پر سخت احتجاج کیا اور پولیس پر ایف آئی آر کٹوانے کا فیصلہ کر لیا جس کے لئے لکھی گئی درخواست کا متن تھا کہ پولیس نے ہماری گرفتاریوں کے لئے مارے گئے چھاپوں میں ہمارے رشتہ داروں کو زدوکوب اور ہمارا مالی نقصان بھی کیا ہے پولیس نے انکوائری کے لئے وہ درخواست رکھ لی ہے جس پر باقاعدہ کارروائی ہو رہی ہے۔ وکلا کا اب موقف ہے کہ ملک وارث ایس ایچ او کو معطل کیا جائے یا اسے تبدیل کیا جائے، سی پی او فیصل آبادایسا ماننے سے انکاری ہیں اُن کا کہنا ہے کہ میں کسی دباؤ میں آکر محکمہ پولیس کے ملازمین پر ہونے والے مظالم اور تشدد کو نہیں بھول سکتا۔ آئی جی پنجاب پولیس، بار کونسل، فیصل آباد کے سیاسی اکابرین اور سول سوسائٹی کو وکلا اور پولیس کے مابین ہونے والے تصادم سے اُن کے درمیان بڑھنے والے فاصلوں کو ختم کرنے کے لئے اپنا کردار نبھانا چاہئے، کیونکہ عدالت، پولیس اور وکلا ایک ہی گھر کے مقیم اور ’’پیٹی بھائی‘‘ ہیں، ان اداروں سے منسلک افراد کو ایک دوسرے کی عزت و تکریم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے زندگی کا پہیہ آگے بڑھانا ہوگا، اگر یہ ادارے ایک دوسرے سے متصادم ہوں گے تو ملک میں امن و امان کی فضا کون بحال رکھے گا؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین