• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس شخص سے پورے چالیس برس بعد ملا جب وہ ایک پکے کمیسار سے اب یوگی کی شکل میں بدل چکا تھا۔ نہ جانے ہم سب کے یہ کتنے جون اور جنم ہیں۔ کس نے جانا تھا کہ چار دہائیاں قبل جامشورو کے شاہ لطیف ہاسٹل کے کامن ہال میں اس سنہری فریم والے، نیلی جینز کی جیکٹ پہنے اس کلین شیو جس نوجوان سے مل رہا ہوں اس سے پھر دوسری ملاقات اپریل کی اس دھوپ زدہ برلن کے الیگزینڈرپلاٹز پر ہوگی۔ الیگزینڈر پلاٹز جو برلن میں سرد جنگ کے زمانے میں مغربی اور مشرقی برلن کے درمیان آخری اسٹیشن تھا۔ وہ اب بھی کل کے مشرقی برلن میں رہتا ہے۔ جو الیگزینڈر پلاٹز کے اس مشہور عالم چوراہے سے آدھے گھنٹے پا پیادہ فاصلے پر ہے۔
کیا ہم سب آگ کے دریا کے کردار ہیں جن کے کئی جون اور جنم ہیں۔ کوئی گوتم نیلمبر ہے تو کوئی کمال الدین منصور، کوئی اُوشا تو کوئی آشا۔ میں نے سوچا۔ پرشوتم سوئیڈن میں خودکشی کرلیتا ہے۔ کامریڈ آصفہ رضوی ادائیگی حج کے دوران وفات پا جاتی ہیں۔ امیر دین قریشی امریکہ میں قطرینہ طوفان کی نذر ہو جاتا ہے۔ پٹ کھولتی بند کرتی چیختی چلاتی جامشورو کی پاگل ہوائیں۔ جن میں صرف یگانہ روزگار شاعر امداد حسینی سگریٹ ہی کیا دیا بھی جلا سکتا ہے۔ جیسے اس نے کہا تھا’’جب بھی میں نے دیا جلایا ہے۔ ہوا نے کتنا زور لگایا ہے‘‘۔شاید اب امداد حسینی کو یاد بھی نہ ہو جب وہ اس شام کتابوں کی اس نمائش میں سگریٹ پینے کے اسٹائل لا بالی پن اور بے باک شاعری کی وجہ سے سب کی نگاہوں کا مرکز تھا جب شیخ ایاز بحیثیت وائس چانسلر تقریر کر رہا تھا۔ اس سے قبل۔ وہ زمانہ میرے اندرمنجمد ہوگیا ہے۔ نومبر کے جامشورو والی وہ ہوائیں آج بھی میرے اندر چل رہی ہیں۔ کس نے جانا تھا کہ اسی الیگزینڈر پلاٹز جس کی سب سے بڑی نشانی برلن کا ٹیلیویژن ٹاور ہے کے نیچے ہم پھر ملیں گے جہاں میں آج سے پچیس برس قبل ایک سرد شام آیا تھا جہاں سابقہ رومانیہ کے خانہ بدوش یا روما جپسی مجمع لگا کر اپنے ’’کرتب‘‘ دکھا رہے تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی پیالیوں کے نیچے کنکر یا سکے رکھتے اور پھر مجمعے میں سے تماشائیوں کو آزمائش میں ڈالتے کہ کس پیالے کے نیچے وہ کنکر یا سکہ چھپا ہے۔ اسکے ساتھ ہی ایک مشرقی یورپی پونی یا چھوٹے قد کا گھوڑا کھڑا تھا۔ یہ روما جپسی بھی اپنے مرغوب باریک کرتب دکھا رہے تھے جسے مجھ جیسا نیم جپسی یا آپ جیسے غیر جپسی ’’نظر کا دھوکہ‘‘ کہتے ہیں۔ سب کچھ نظر کا دھوکہ ہی تو ہے۔ کل یہاں دیوار برلن کھڑی تھی آج کچھ بھی نہیں تھا۔
دیکھا تو یہیں تھا سوچا تو نہیں ہے
کل کوئی جانے والا ہے۔
یہ جو کشور کمار تھا نہ یہ بھی آواز میں’’نظر کا دھوکہ‘‘ تھا بہت بڑا جادوگر تھا۔ کیسی تھی وہ رات جب ساری رات حیدرآباد میں چھت پر کونڈے تیار ہونے کو شب بیداری ہو رہی تھی اور ساتھ میں عین کشور کا یہی گانا اسٹیریو پر لگا تھا۔ کہاں گیا وہ میرا دوست پپو شاہ۔ سب نظر کا دھوکہ۔
اب اپریل کی ٹھنڈی ہوائیں بہت ہی شجر سے ہرے بھرے برلن میں چل رہی تھیں اور ہم اچھے موسموں میں مل رہے تھے۔ وہ نہ جانے کہاں کہاں گھومتا رہا تھا۔ جیسے یہ ہوائیں گھومتی رہتی ہیں۔ یورپ، کیوبا، کراچی اور پھر یورپ میں اب برلن۔ میں اسے برلن کا میئر کہوں گا۔ جیسے میں اپنے دوست مسعور حیدر کو نیویارک کا مئیر کہتا ہوں۔ وہ نیویارک کی گلیاں کوچے اور مقامات ایسے جانتا ہے جیسے اینڈورائیڈ پر ایپلیکشن بھی نہیں جانتی۔ اسی طرح میرا یہ دوست برلن کو جانتا ہے۔ وہ جرمنوں جیسی جرمن بولتا ہے۔ ہم ترک اور عرب کھانے پینے کی جگہ پر جا بیٹھے۔ اب چالیس برسوں کی باتیں اور کہانیاں چار گھنٹوں میں کیسے پوری ہو سکتی تھیں بھلا۔ پھر یہ چالیس برس ہزاروں سال تک پھیل گئے۔ جب آخر کار اپنے تھیلے سے ،جس پر ’’چے گویرا ‘‘ کی تصویر آج بھی بنی ہوئی تھی سے، اس نے وہ مورتی نکالی جو وہ انیس سو اسی سے اپنے پاس رکھ رہا ہے۔ یہ چھوٹی سی نقل موہن جو ڈرو سے برآمد ہوئی رقاصہ کی مورتی تھی۔ جسکی نقل اس نے موہن جو ڈرو کے عجائب گھر کے اسٹور سے خریدی تھی۔ اس بات کو آدھی صدی ہونے کو ہے پر وہ ساتھ لئے پھرتا ہے۔ برلن میں بھی وہ اسکے ساتھ تھی اسوقت بھی جب وہ مجھ سے مل رہا تھا۔ وہ معروف مصور اور مجسمہ ساز بھی ہے۔ اس نے مٹی سے اس طرح کی مورتی ایک اور جوڑٰی تھی جو مجھے ایک یادگار تحفے کے طورپر عطا کی۔ مجھے لگا یہ وہ آدمی ہے جو ہزاروں لاکھوں سال اسی جگہ کے آس پاس سے موہنجو داڑوتک کا سفر کر کے گیا تھا۔یایہ روما جپسی تھا جو ہمارے ہی جیسے دیسوں سے آیا تھا۔ سکھر اور سمہ سٹہ کی ریلوے کالونیاں۔ لکھنو۔ کراچی۔ اس نے شکارپور کو بھی یاد کیا جہاں اسکی ملاقات بیدل مسرور بدوی سے ہوئی تھی۔
وہ رنگین پری زادیوں کی سی تصویریں جو عمر خیام کی رباعیات کی کتاب میں مصور کی ہوئی تھیں جس کتاب کو اس کے ابا نے گھر میں بچوں کو دیکھنے سے منع کیا ہوا تھا۔اس نے پھر اسی لئے شاید اسی ایک پری زادی کی تصویر کو تصور کرنے کو ساری زندگی مصوری سیکھی۔
’’سیکھے ہیں مہ وشوں کے لئے ہم مصوری‘‘
کیا آپ کے ہاں وائی فائی چل رہا ہے؟ اس نے ایک پاکستانی برگر کی دکان والے سے پوچھا ’’نہیں۔ وائی فائی خراب ہے‘‘ پاکستانی بھائی کا حسب متوقع جواب تھا۔
تم جو یہاں سے بیٹھو گے نہ بس ایک سو نمبر ڈبل ڈیکر یا دو سو پر یہ تمہیں سیدھی کرفرسٹرڈم اسٹراسے (کرفراسٹراڈم اسٹریٹ) لے جائے گی راستے میں دیکھنے کو کئی منظر اور مقام پڑتے ہیں۔ مجھے یاد آیا براڈن برگ دیوار برلن جہاں ہوتی تھی وہ کچھ زیاد دور نہیں تھی۔ دیوار برلن کا ایک آدھ پتھر تمہیں شاید میرے ہاں بھی مل جائے۔ اس نے کہا کرفراسٹراڈم برلن کا مال روڈ یا بندر روڈ ہے۔ لیکن بہت ہی فیشن ایبل شاہراہ۔ اس بس نمبر ایک سو کا آخری ا سٹاپ ’’زولوجوکل گارڈن ‘‘اسٹیشن تھا۔ ہر ایک چیز تھی اپنی جگہ ٹھکانے پر۔ وہ جو پچیس برس پہلے تھا۔ بس اب فرق صرف یہ ہوا تھا جو اسٹیشن سے باہر لیمپ پوسٹ کے نیچے بن ٹھن کے کھڑا تھا اب وہ مشرقی یورپی یا بوسنیا کا مہاجر نوجوان نہیں تھا۔ اسکی جگہ یہ شامی نوجوان ریفیوجی کھڑا تھا۔ میں نے برلن کی اس مشہور شاہراہ کروفراسٹراڈم یا کودم پر دیکھا کہ بیچ سڑک کے بہتی ٹریفک کو اپنی نئی نئی مرسیڈیز اور بی ایم ڈ بلیو کاروں اور موٹر سائیکلوں کو روک کر بیچ بہتی سڑک کو بلاک کرکے ترک موسیقی پرنوجوان رقص کر رہے تھے۔ شاید کوئی بارات تھی یا ایسے جیسے کلفٹن ڈیفنس کے بچے کرتے ہیں۔ (سفر نا تمام )
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین