• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا اور پاکستان کے درمیان تجارت میں ریکارڈ اضافہ

امریکا اور پاکستان کے درمیان تجارت میں ریکارڈ اضافہ

امریکا اور پاکستان کے درمیان تنازعات کے باوجود دونوں ممالک میں2017تجارت میں  اضافے نے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے یہ بات بھی اپنی جگہ قابل غور ہے کہ تجارت کا حجم زیادہ نہیں ہے حالانکہ امریکا نے پاکستان کو جی ایس پی (GSP) کی سہولت بھی دے رکھی ہے جس کے تحت پاکستان کی برآمدات پر امریکا نے کسی قسم کی کسٹم ڈیوٹیز اور دیگر ڈیوٹیاں نہ نافذ کرنے کا فائدہ دے رکھا ہے اب یہ پاکستان کے تجارتی حلقوں اور حکومت کا کام ہے کہ وہ یورپ اور امریکا سے تجارت بڑھا کر اپنی برآمدات بڑھائیں جو پہلے ہی 21.1ارب ڈالر ہیں جو نہ ہونے کے برابر ہیں اور پاکستان کو زر مبادلہ کی شدید ضرورت ہے جس کے لیے ایمنسٹی اسکیم کا اجرا بھی کردیا ہے اور خود مفتاح صاحب آئی ایم ایف سے بات چیت کرنے امریکا روانہ ہوگئے ہیں۔

جی ایس پی کی سہولت

امریکا کے عوامی نمائندگان کے ہائوس نے اس بل کی تجدید کی ہے جسے جی ایس پی کہتے ہیں یہ جیز لائرڈسسٹم ترجیحات کا ہے اس کے تحت پاکستان ڈیوٹی فری اشیا و مصنوعات امریکا کو ایکسپورٹ کرسکتا ہے یہ اسکیم تین سال کی ہے اور دسمبر 2020میں ختم ہوجائے گی باوجود اس کے کہ امریکا کو 800ارب ڈالر کا توازن ادائیگیوں میں خسارہ ہے اس کے باوجود امریکا نے پاکستان سمیت 124ممالک کو یہ سہولت ایک مرتبہ پھر دے دی ہے۔ تاہم سینٹ کے بعد صدر ٹرمپ کے دستخط باقی ہیں۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو زیادہ فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ان کی تجارت کا حجم بہت کم ہے۔ گزشتہ پندرہ برسوں سے پاکستان و امریکا کا تجارتی حجم بلحاظ مقدار کم ہوتا جارہا ہے کیونکہ حقیقی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی ٹیکسٹائل کی مصنوعات 75فیصد برآمدات امریکا کو ہوتی تھیں جو اب کم ہوکر تقریباً 30فیصد رہ گئی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان انرجی بحران سے باہر نہیں نکل سکا نتیجتاً بجلی نرخ زیادہ ہونے کی وجہ سے برآمدات میں دوسرے ممالک کے ساتھ پاکستان مسابقت نہیں کرسکتا۔

2017میں امریکا پاکستان تجارت میں ریکارڈ اضافہ

امریکا اور پاکستان کے دو طرفہ تجارت نے 2017میں 6ارب ڈالر کی اعلیٰ ترین سطح کو عبور کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اسی دوران پاکستان میں مقیم امریکی سفارت کار کارڈیوڈھیل نے امریکی بزنس کونسل برائے پاکستان کے صدر کامران نشاط اور ان کی ایگزیکٹو کمیٹی سے ملاقات کی ملاقات کے بعد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سفارت کار نے کہا پاکستان کو امریکا کے کارپوریٹ کے ساتھ زیادہ روابط کی ضرورت ہے تاکہ ان کے ساتھ مل کر پاکستان تجارت کو بڑھائے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعاون سے دو طرفہ معاشی تعلقات کو فروغ ملے گا۔انہوں نے کونسل کی جانب سے تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے پاکستان میں ماحول پیدا کرنے پر پاکستانی حکومت کے تعاون کرنے کی ستائیش بھی کی۔ جبکہ دوسری جانب امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری نے کہا ’’اہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کو ایسا ہی دیکھا جائے جیسا وہ ہے ایک ایسا ملک جس کی 20کروڑ سے زائد آبادی کا بڑا حصہ متحرک متوسط طبقے پر مشتمل ہے اور وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

امریکا کے ساتھ تجارت میں اضافہ کرنے کے لیے ضروری اقدامات

پاکستان نے امریکا کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں اسےایڈ سے زیادہ ٹریڈ کی ضرورت تھی لیکن پاکستان کے تجارتی حلقوں اورحکومت نے اس جانب کوئی مثبت پیش رفت نہیں کی۔ یو ایس سینس بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2004میں پاکستان کی امریکا کو برآمدات 22.3672ملین ڈالر تھی یعنی 21کروڑ ڈالر کے لگ بھگ تھی 2017میں 6ارب ڈالر تک پہنچ گئی تاہم پاکستان امریکا تجارت 15ارب ڈالر سے زائد ہونی چاہیے۔ پاکستان امریکی منڈیوں کی اچھی طرح تحقیق نہ کرسکا۔ حالانکہ ہندوستان کی 2004میں تین لاکھ ڈالر برآمدات تھیں 2005میں پاکستان کی برآمدات کم ہوکر 20کروڑ ڈالر رہ گئیں اور ہندوستان کی 18ملین ڈالر تک ریکارڈ کی گئیں۔ 

یعنی تین لاکھ ڈالر سے بڑھ کر ایک کروڑ اسی لاکھ ڈالر ہوگئیں۔ اس وقت بھارت کا امریکی تجارت میں تین سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے اس عرصے میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات اچھے تھے اور دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان امریکا کا اہم اتحادی تھا جس کی وجہ سے پاکستان کو ناقابل بیان نقصان ہوا پاکستان ایک ہی شرط پر ساتھ دیتا کہ اس کو ایڈ سے کہیں زیادہ ٹریڈ کی ضرورت ہے اور اس طرح پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ کے باوجود زرمبادلہ کمانے کا اچھا موقع مل جاتا۔ اور اس قدر قرضے نہ لینے پڑتے۔ جنرل مشرف نے اڈے بھی دے دیئے لیکن ٹریڈ پر کوئی بات نہ کرسکے اس کے بعد آنے والی حکومتوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان حکومتوں نے بھی قرضے لیے لیکن ٹریڈ میں اضافہ نہ کرسکے۔

2005میں جاپان نے پاکستان جاپان اکنامک زون قائم کرنے کا پاکستان کو مشورہ دیا۔ جس کے لیے باقاعدہ جاپانیوں نے جائزہ لے کر دھابے جی میں خطہ زمین منتخب کیا تھا جس پر قبضہ ہوچکا ہے جاپانیوں کے کہنے کے باوجود کوئی حکومت اس قبضے کو نہ چھڑواسکی۔ عصر حاضر میں یورپ اور امریکا نے پاکستان کو جی ایس پی کی سہولت دے رکھی ہے اس لیے پاکستان کے حکام اور تجارتی و صنعتی حلقوں کو چاہیے کہ وہ بھرپور کوشش کریں کہ موجودہ تجارتی حجم کو تین گنا بڑھائیں اس کے لیے پیداواری صلاحیت کو بھی بڑھانا ہوگا تب جاکر ہم معاشی طورپر ترقی کرسکیں گے۔

تازہ ترین