• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیشنل واٹر پالیسی

مشترکہ مفادات کی کونسل(CCI) نے آخرکار نیشنل واٹر پالیسی کی منظوری دے دی جب پانی کے سلسلے میں ہنگامی حالات کے نفاذ کے لئے بھی کہا جا رہا ہے۔ 1947ء میں پاکستان میں پانی کا فی کس تناسب5400مکعب فٹ تھا آج2018ء میں ایک ہزار مکعب فٹ رہ گیا ہے اس میں آبادی کے اضافے کو شامل کر لیا جائے تو2ہزار مکعب فٹ فی کس دستیاب ہے جو نہایت خطرناک بات ہے۔ صوبوں کے تحفظات بہت شدید ہیں جس کی وجہ سے ایک عشرے سے واٹر پالیسی کا اعلان نہ ہو سکا۔ سی سی آئی نے واپڈا کے پی کے اور پنجاب کو ہدایت دی ہے کہ اے جی این قاضی فارمولے کے تحت ہائیڈل منافع کے بقایا جات اور اس کے نرخوں پر بات چیت سے مسئلہ حل کریں۔ کے پی کے کے وزیراعلیٰ کا موقف ہے کہ پنجاب، کے پی کے سے ہائیڈل پاور سوا روپے یونٹ خریدتا ہے اور 14روپے فی یونٹ فروخت کرتا ہے لیکن کے پی کے کے بقایا جات کی ادائیگی اور نرخوں پر بات کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ 

سی سی آئی نے جس فارمولے کے تحت مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کہا ہے اس سے کے پی کے کو60ارب کی ادائیگی ہونی ہے۔ سی سی آئی نے نیشنل واٹر چارٹر کی منظوری بھی تمام صوبوں کی رضامندی سے دی ہے۔ 1991ء کے متفقہ فیصلے کا احیاء کیا جا رہا ہے جو صوبوں کے مابین ہم آہنگی کے لئے نیک شگون ہے۔ فاضل پانی پر صوبوں کا حق اور ماحولیاتی تحفظ کے ضابطوں پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ پانی کا مسئلہ پاکستان کی آب و ہوا کی تبدیلی اور ہندوستان کا دریائے سندھ پر غیرقانونی طور پر ڈیم بنانا موت اور زندگی کا مسئلہ بن گیا ہے۔ ایک عرصے سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ڈیمز بنا رہا ہے، لاگت بڑھتی جا رہی ہے لیکن اب تک کوئی ڈیم تعمیر نہیں ہوا۔

بھاشا ڈیم کی اسٹوریج گنجائش بڑھائی جا رہی ہے

دیامیر بھاشا ڈیم اور نیلم جہلم کی بازگشت مسلسل20سال سے سنی جا رہی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی مکمل نہیں ہو پا رہا، کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہو گیا اس میں صوبوں کے مابین بے اعتمادی کی فضا قائم ہے اور یہ فضا چھوٹے صوبوں کے موقف کی پذیرائی نہ ہونے سے مزید مکدر ہو رہی ہے۔ 2009ء میں سی سی آئی نے بھاشا ڈیم بنانے کی اجازت دے دی تھی لیکن مالیاتی قلت اور اس سے افزوں یہ تنازع بھی کھڑا ہو گیا ہے کہ چین کا دعویٰ ہے کہ اس کا کچھ حصہ چین میں ہے۔ 

پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور پانی، بجلی کے منصوبے تاخیری زنجیر کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب پانی کی قلت کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کر رہا ہے۔ پاکستان کی حکومتوں نے نہ تو تالاب بنائے نہ ڈیم اور نہ ہی جدید طریقوں سے پانی استعمال کرنا سیکھا ہے۔ سب سیاستدانوں کو اپنی اپنی پڑی ہے کیونکہ اگر پانی کا مسئلہ زیادہ گمبھیر ہو جاتا ہے تو سیاستدانوں کی رہائش اور کاروبار باہر ہیں، عوام کے لئے یہ موت اور زندگی کے درمیان تصادم کا مسئلہ ہے اور یہی ہندوستان کی منشا ہےمگر کوئی سیاستدان یا پارلیمان اس پر گفتگو نہیں کرتے۔ پبلک سیکٹر پروگرام میں بھی اسے کوئی خاص حیثیت نہیں دی گئی اور نہ بجٹ تقریر میں مفتاح اسماعیل نے اس انتہائی اہم مسئلہ پر بات کی ہے، اس کے لئے صوبوں اور وفاق نے جو رقم رکھی ہے وہ145ارب روپے ہے جو بہت کم ہے۔

پانی کے ضیاع کو2030ء تک کم کردیا جائے گا

حیرت کی بات ہے کہ سرکاری ذرائع کہہ رہے ہیں پانی کا زیاں جو46فیصد ہے اسے2030ء میں33فیصد کر دیا جائے گا۔ واٹر ایمرجنسی کے تحت اسے چند سالوں میں ختم ہونا چاہئے۔ پاکستان کے ماہرین کو اکٹھا کیا جائے اور پانی کے ضائع ہونے سے ملک کو نجات دلائی جائے۔پاکستان کا آب پاشی نظام دنیا کا بہترین نظام ہونے کے باوجود پختہ نہ ہونے کی وجہ سے سیم اور تھور کا مرض زرعی زمین کو برباد کر رہا ہے۔ 70سال میں اس کا کوئی حل تلاش نہیں کیا گیا جو 34فیصد اراضی کاشت کے قابل ہے اسے بھی زیر کاشت نہیں لایا جا رہا ۔ 

سرمایہ دارانہ کاشت کرنے والے بڑے زمیندار7فیصد ہیں اور وہ اپنی مرضی کے مطابق کاشت کرتے ہیں ملک کی ضرورت کے مطابق نہیں، 93فیصد جو چھوٹے کاشت کار ہیں ان کے وسائل بہت کم ہیں لہٰذا وہ اپنی اراضی فروخت کر کے شہروں میں کچی آبادیوں میں نہایت اذیت ناک زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن زرعی اصلاحات اور زراعت میں انقلابی اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ 

اگر ایسا ہو جائے اور پانی کا ذخیرہ بھی ہو تو پاکستان دس سال میں فوڈ پاور بن سکتا ہے۔ آب پاشی کی ٹیکنالوجی چھڑکائو کو ابھی تک مکمل طور پر اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان کی گندم کی پیداوار فی کس ہندوستان سے 50 فیصد کم ہے یہ اس لئے ہو رہا ہے کہ دیہات کی قیمت پر شہر بنائے جا رہے ہیں، فلک بوس عمارتیں زرخیز زمین پر بنائی جا رہی ہیں، درخت کاٹے جا رہے ہیں جس سے موسم اور آب و ہوا نعمت کی بجائے زحمت بن رہے ہیں۔

آب و ہوا کی تبدیلی اور پانی کی قلت کا حل

ڈیمز بنائے جائیں، ملک کو درختوں سے بھر دیا جائے۔ پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جس کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ یہ آب و ہوا کی تبدیلی کی زد میں ہے اور سب سے بڑا مسئلہ پانی کی قلت کا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ پانی کا ذخیرہ کرنے کے تمام اقدامات کئے جائیں اور پانی کو سائنسی بنیادوں پر استعمال کیا جائے۔ ہندوستان دریائے سندھ کے معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کر رہا ہے اور پاکستان کے حکمراں تاخیر سے ان خلاف ورزیوں کے خلاف بین الاقوامی اداروں میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت مغربی دریائوں کے دہانے پر پروجیکٹ بنانا منع ہے کیونکہ یہاں سے پانی کا بہائو پاکستان کی طرف جاتا ہے جسے کسی طور روکا نہیں جا سکتا اس کی وجہ سے پانی دستیاب نہیں ہوتا اور پاکستان کے صوبے بھی آپس میں بے اعتمادی کا شکار ہو رہے ہیں۔ 

ادھر صوبہ سندھ نے کہا کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA) فوری طور پر منگلا ڈیم کو پانی سے بھرنے کا کام بند کر دے ورنہ سندھ کی خریف کی فصل تباہ ہو جائے گی۔ پنجاب میں بھی پانی کی کمی، کہا جاتا ہے سندھ سے بھی کم ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے بہت ضروری ہے کہ تمام صوبوں کے زرعی ماہرین اور سیاستدان سر جوڑ کر بیٹھیں اور خلوص نیت سے اس کے حل کی طرف پیش قدمی کریں اور ہندوستان سے بھی بات چیت کریں۔

تازہ ترین