• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی معیشت میں بچت کی اہمیت

بچت قومی سطح پر ہو یا گھریلو سطح پر دونوں صورتوں میں نہایت اہم ہے۔ بچت کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے ایک خاص وقت میں انسان کی آمدنی میں سے اخراجات کرنے کے بعد بچ جانے والی رقم کو ”بچت“ کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ رقم جو انسان اپنی آمدنی میں سے خرچ کرنے سے بچا لیتا ہے۔ اسے ذاتی بچت بھی کہتے ہیں۔ 

کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بینک میں جمع کرائی ہوئی رقم کچھ کے نزدیک شیئرز کی خریداری یا پھر پنشن پلان کی خریداری ہے لیکن معاشیات کی رو سے بچت کا صرف ایک ہی مطلب ہے ”کہ اپنے موجودہ ذرائع میں سے کم خرچ کرنا تاکہ بچائے ہوئے ذرائع کو مستقبل میں خرچ کیا جا سکے۔ بینک میںجمع شدہ رقم‘ سیکیورٹیز اور رہن میں سرمایہ کاری یا پھر اپنے پاس رقم کا زیادہ رکھنا بھی شامل ہے۔ انسان کے بچت کرنے کے فیصلے کا انحصار اس کے اخراجات‘ متوقع آمدنی‘ اور شرح سودکو دیکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ سازی پر ہوتا ہے۔

پیسہ بچائیے کل کام آئے گا

کسی دانشور کا قول ہے ”ایک پیسہ بچانا ایک پیسہ کمانے کے برابر ہے معاشیات کی رو سے یہ اصطلاح سرکاری اور نجی بچتوں کا مجموعہ ہے۔ حکومتی شعبوں میں ہونے والی بچت سرکاری بچت کہلاتی ہے۔ اس کا انحصار حکومت کے بجٹ کی صورتحال پر ہوتا ہے اور یہ بجٹ کے خسارہ کے متضاد ہوتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر ٹیکس کی آمدن اور حکومتی اخراجات کے در میان فرق ہے‘ جبکہ نجی بچت قومی سطح پر ہو یا گھریلو سطح پر دونوں صورتوں میں نہایت اہم ہے۔

سرمایہ کاری اوربچت

گھریلو بچتوں کو سرمایہ کاری کے فروغ میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اگر کسی معیشت میں حقیقی سرمایے کی کمی ہو تو اسے سرمائے کے لحاظ سے غریب معیشت تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا سامنا تمام ترقی پذیر ممالک کو ہے۔ کیونکہ ”آج کی بچت کل کی سرمایہ کاری ہے۔ تھرل وال بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”ایک معیشت کی نمو کی بنیاد تعمیر سرمایہ پر ہے جس کے لئے سرمایہ کاری اور بچت دونوں ضروری ہیں ” معاشی ترقی حاصل کرنے کیلئے دو چیزوں‘ مسائل پر توجہ بہت ضروری ہے۔ اول یہ کہ بچت کیسے کی جائے۔ دوم اس بچت کو سرمایہ کاری میں کیسے تبدیل کیا جائے۔دور حاضر میں نئی نئی مصنوعات کی دستیابی اسراف کی عادت اور اشیائے صارفین کی بہت زیادہ پیداوار نے کسی بھی معیشت کی بچتوں کے حجم کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ ترقی پذیر قومیں غربت کے شیطانی جال میں پھنس گئی ہیں۔ 

یہ جال کم آمدنی والے لوگوں کی سطح سے شروع ہوتا ہے کیونکہ کم آمدنی والے لوگ بچت نہیں کر پاتے جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوتی ہے اس سے سرمائے میں نہ صرف کمی آتی ہے بلکہ پیداوار میں بھی کمی ہوتی ہے۔ پیداوار کی کمی کی وجہ سے آمدن کم ہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں آمدنی اور معیار زندگی میں فرق ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے لوگ ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے معیار زندگی کی اندھی تقلید کرتے ہیں جسے عام زبان میں ”بین الاقوامی مظاہر اثر“ کا نام دیا جاتا ہے۔ایک اوربنیادی عنصر جو کہ بچتوں اور سرمایہ کاری کے تعین میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہ ہے کاروباری تنظیم کاری کی صلاحیت‘ پسماندہ قوموں میں اچھی اور موثر کاروباروی تنظیم کاری کی کمی ہے جو گھریلو بچتوں کو بروئے کار لا کر اپنی قوم کو ترقی کے راستے پر لاسکیں۔ شمپڑا ایک مشہور معیشت دان ہے جس نے معاشی ترقی کی رفتار کے تعین کے لئے دلیرانہ کاروباری تنظیم کاری پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ 

ترقی پذیر ممالک کے کاروباری تنظیم کار یا تاجر بہت جلد اور زیادہ منافع کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ سرمائے کی مارکیٹ کے خطرات کا سامنا کرنے سے بھی ڈرتے ہیں حالانکہ کیزین معیشت دانوں نے کہا ہے کہ ”جہاں زیادہ رسک ہوتا ہے وہاں منافع بھی زیادہ ہوتا ہے“ اس دور میں پاکستان کو بھاری بجٹ کے خسارے کا سامنا ہے۔ اس خسارے کو پوراکرنے کے لئے مزید قرض کی طلب سے افراط زر اور شرح سود میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ پاکستان غربت کے شیطان جال میں پھنس چکا ہے اور دن بدن صورت حال خراب ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ بے روزگار ہیں اور افراط زر کا سامنا بھی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری اور بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ بچت اور سرمایہ کاری کی ترغیب نہیں ہے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت کم ہے۔ ترقیاتی معاشیات کے مطابق ایک معیشت کے لئے 25% شرح بچت ضروری ہے لیکن پاکستان میں پچھلے عشرے میں شرح بچت بہت تیزی سے گری ہے۔ پاکستان میں 50% فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ 

لوگوں کا معیار زندگی گر رہا ہے۔ زرعی شعبے پر بہت زیادہ انحصار ہے جو کم پیداوار کی وجہ ہے۔ لوگ بنیادی ضروری بڑی مشکل سے پوری کرتے ہیں۔ مشکل وقت کے لئے بچت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ معیشت پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوتھ ہے جس کی وجہ سے قومی بچتوں کی شرح کم ہو گئی ہے پیداواری منصوبوں میں مالیاتی ذرائع کا مناسب استعمال نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی بچت کرنے کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔

ایک وقت تھا جب لوگ سادہ زندگی بسرکیا کرتے تھے۔ روپے پیسے کی ریل پیل تک نہیں تھی اور نہ ہی لوگوں میں دولت کے حصول کی طمع تھی ۔ عورتوں میں نت نئے فیشن اور نمود ونمائش کا رواج تک نہ تھا، زندگی نہایت پر سکون تھی۔ کاروباری کھانے کے بجائے گھریلوکھانے کی تیاری عروج پر تھی اورگھرکے تمام افراد ایک ساتھ بیٹھ کرکھانا کھاتے تھے۔ کمانے والا ایک اورکھانے والے کنبے کے کئی افراد کے باوجود آپس میں محبتیں تھیں۔ خونی رشتوں اور خاندانی پاسداری کا خیال رکھا جاتا تھا۔

آبادی کی قلت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ گاؤں اور دیہات شہر سے نہایت ہی کم مسافت پر واقع تھے۔ زمین زرخیز ہوا کرتی تھی ۔ چھوٹے اور بڑوں کے درمیان عزت واحترام کا مقدس رشتہ استوار تھا۔ کم عمر اور جوان بچیوں میں شرم وحیا تھی۔ خورونوش کی اشیا آپ کی دسترس میں تھیں۔ ارد گرد کا ماحول نہایت خوشگواراورصحت افزا ہوا کرتا تھا ۔لڑکے اور لڑکیوں کے رشتہ ناتے آپس ہی میں طے پا جاتے تھے اور یوں خاندان کی روایت، عزت وناموس اور بھرم قائم رہتا تھا ۔

تازہ ترین