• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی دارالحکومت سمیت مختلف شہروں میں بہار کی رنگینیوں کیساتھ ہوا میں پھیلنے والی پولن الرجی کےمصداق پیارےوطن میں سیاسی فضا بھی آلودگی کا شکار نظر آتی ہے، ہمارے محترم سیاسی رہنما زبان وبیان سے ایک دوسرے کی ذات سے لے کر کردار تک کو مشق ستم بنائے ہوئے ہیں۔90کی دہائی کے مناظر نئے کرداروں میں پرانا اسکرپٹ دہراتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ملک کے اندرونی و بیرونی حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں کررہے، کسی کو کچھ احساس ہے بھی تو وہ نظرانداز کررہے ہیں۔ پاکستان کو درپیش چیلنجز کی تفصیل طویل ہے، ہمسائے ازلی دشمن ملک بھارت کی سرحدی خلاف ورزیاں، کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر فوجی تشدد، بدنام زمانہ را ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کرنا۔ پاکستان کو عدم استحکام کرنے کی بدترین سازشیں، بہت بڑا فیکٹر ہے۔ ایران اور افغانستان کی بوجوہ ناراضی بھی پریشانی کا باعث ہے۔ سنگین صورت حال امریکہ کی جانب سے عدم اعتماد اور بےوفا یار والا سلوک ہے۔ ان تمام حالات کےسب سے زیادہ متاثرہ فریق اندرون وبیرون ملک بسنے والے وفادار پاکستانی ہیں۔ ان مسائل اور چیلنجز کا ادراک اور حل کے راستے نکالنا ملک کی منتخب حکومت کا بنیادی فرض ہے جس میں اب تک وہ بہت حد تک ناکام نظر آتی ہے جبکہ آنے والی حکومت سے عوام کو ابھی محض امیدیں ہی وابستہ ہیں۔
قومی افق پر اطمینان بخش اور خوش آئند بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں پہلی مرتبہ دوسرا جمہوری دور مکمل ہونے جارہا ہے۔9سالہ مشرف ڈکٹیٹرشپ کے دوران دو بڑی سیاسی جماعتوں میں چارٹر آف ڈیموکریسی کے نام پر مفاہمت، مشترکہ حکمت عملی اور باہمی تعاون سے ایک جمہوری راستے کا انتخاب زیادہ دیر راس نہیں آیا تاہم اس کے قدرے تسلی بخش ثمرات ضرور سامنے آئے ہیں۔ جیسے کہتے ہیں کہ کرکٹ اور سیاست میں حتمی کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح شہرہ آفاق کرکٹر عمران خان بھی انہی تجربات کو سیاست میں آکر مسلسل دہرا رہے ہیں، انکی سیاست سے کسی کو لاکھ اختلاف سہی، انہوں نے گزشتہ دو دہائیوں سے ثابت قدمی ضرور دکھائی ہے اور ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کے جذبہ سے بدستور سرشار نظر آئے ہیں پس انہیں ضرورت ڈرائی کلینڈ عناصر کی نہیں صرف مخلص اور صاف ستھرے حقیقی سیاسی کرداروں کی ہے۔ نااہلی کے بعد ن لیگ کے قائد نوازشریف اپنی سیاسی بقا سے کہیں زیادہ اپنی صاحبزادی کے سیاسی مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں جو بظاہر تنہا ہر محاذ پر مردانہ وار ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ تاہم انہیں اس بات کا اچھی طرح ادراک ہوچکا ہے کہ ان کا اقتدار ہی نہیں سیاست میں بھی کردار کو مکمل ختم کیا جارہا ہے شاید مکمل سمجھداری سے وہ اب دھمکیوں پر اترے ہوئے ہیں پہلا باقاعدہ وار ایک اخباری انٹرویو میں ممبئ حملوں کو نان اسٹیٹ ایکٹرز کی بجائے براہ راست ریاستی عناصر کی پشت پناہی قرار دے کر کیا ہے۔ باقی تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈرز تو سخت ردعمل دے کر اپنا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں لیکن چھوٹا بھائی جو پارٹی صدر بھی ہے بڑے بھائی اور خاندان کو کسی نئی مصیبت سے بچانے کی سعی میں لگا ہے۔ اچنبھے کی بات نہیں کہ میاں صاحب نے اپنے بیان پر قائم رہ کر کھلی جنگ کا طبل بجا دیا ہے کیونکہ انہوں نے کم وبیش یہی باتیں دوسال پہلے اخباری لیکس میں بھی کی تھیں، ان کا نتیجہ اقتدار سے ہاتھ دھوکر پا چکے، اب وہ متنازع بیان دے کر ’’امر‘‘ ہونا چاہتے ہیں، ان کے خیال میں اپنے ریاستی اداروں پر الزام تراشی سے وہ اپنی سیاست بچا سکتے ہیں تو اس پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے اب انہیں اس کا خمیازہ وضاحتیں دینے والے چھوٹے بھائی کی وفاداری کھو دینے، پارٹی میں توڑ پھوڑ اور اپنے لئے نئی مشکلات کی صورت میں بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ نقادوں کی رائے میں جس شخص کو چھوٹا بھائی اپنا سر کا تاج اور پارٹی اپنا قائد سمجھتی ہے وہ اگر قومی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر انتہائی بے بنیاد انتقامی الزام لگائے تو پھر سب سے پہلے چھوٹے بھائی اور پارٹی کو انتہائی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ سیاست بچائیں گے یا ریاست۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی نے سیاسی میدان میں مچی دھماچوکڑی سے خوب ’’جمہوری مفاد‘‘ کی راہ لی ہے، گو یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ انہوں نے طاقتوروں سے امان اور اقتدار میں آنے کیلئے ڈیل کی ہو لیکن اس مرتبہ تو سجن بے پروا کے مصداق سیاسی قد کاٹھ اور نظریئے پر کاری ضرب پڑنے کو بھی خاطر میں رکھا اور ہر طرف ’’اب کی بار پھر زرداری‘‘ کی گونج سنائی دے رہی ہے، کچھ بھی کریں سچ یہی ہے کہ پارٹی کی بقا حقیقی نظریاتی سیاست کے سوا ممکن نہیں۔ اس سارے سیاسی کھیل تماشے اور شور شرابے کے درمیان قوم اس خوش کن پہلو کو بھی دیکھ رہی ہے کہ بالآخر70 سال بعد پہلی مرتبہ دوسری سیاسی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کررہی ہے، اسٹیبلشمنٹ پر حکومت الٹانے اور جمہوری حکومت کو گھر بھیجنے کے گھٹیا اندازے اپنی موت مر گئے، طرح طرح کے خدشات اور سازشی تھیوریوں کے درمیان سینیٹ کے انتخابات بروقت ہوگئے، حلقہ بندیوں کے کام میں تاخیر اور بےجا ردوبدل کے الزامات کے باوجود الیکشن کمیشن نے اپنا کام مکمل کر دکھایا، سپریم کورٹ کی مداخلت پر آئندہ انتخابات میں تارکین وطن کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کا خواب تعبیر پانے کو ہے۔2018 ء کے عام انتخابات میں بیلٹ سے فیصلے کا وقت بھی آن پہنچا ہے، ایسے حالات میں جب سیاسی وجمہوری سطح پر سب محواقتدار تھے، لڑائی جھگڑوں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے ہتھکنڈوں کے باوجود10سالہ جمہوری دور مکمل ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو موجودہ ترقی کے تیز رفتار دور میں 10سالہ بچہ بھی بالغ نظر ہو جاتا ہے لہٰذا وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ سیاست کو محض اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہونیکی روش ترک کی جائے، سیاست کو بچپنے کے دور سے نکال کر بلوغت کے صحن میں قدم رکھنے کی اجازت دی جائے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے نازک معاملات پر غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کرنا بند کردینا چاہئے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے عفریت سے بڑے سے لیکر معصوم بچوں تک کوئی نہیں بچا، تو کیا ہم اپنی آنکھیں اب بھی بند رکھیں گے۔ خدارا سیاست کے بجائے ریاست کا سوچیں، اپنی توانائیاں عقل سلیم سے ملکی اور عوامی فلاح کے لئے کچھ کر گزرنے کی سوچ پر استعمال کریں، مملکت اور فیڈریشن کو مضبوط بنانےکیلئے قوم کو یکجا کریں۔ عوام کو صحت، تعلیم، روزگار سمیت تمام زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے منصوبے بنائیں اور عمل درآمد کا جامع لائحہ عمل بنائیں۔ پاکستان کے عوام آپ کو پھر اقتدار کا موقع دینے جارہے ہیں خدارا اپنے اقتدار کی فکر چھوڑ کر اس پاک سرزمین کا سوچیں جو لاکھوں قربانیوں سے حاصل ہوئی ہے، ورنہ آپ سب اپنے اقتدار کو پانے کے لئے اپنا اعتبار کھو دیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین