• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رمضان المبارک میں لاحق ہونے والے امراضِ معدہ کا علاج

رمضان المبارک میں لاحق ہونے والے امراضِ معدہ کا علاج

ڈاکٹر غزالہ علیم

ماہِ صیام، ’’نیکیوں کا موسمِ بہار‘‘ ایک بار پھر ہمیں نصیب ہے۔ اس ماہ ہر مومن کی یہی آرزو ہوتی ہے کہ وہ صحت مند رہ کر زیادہ سے زیادہ سعادتیںو برکتیں سمیٹے، لیکن غذائی اُصولوں سے عدم واقفیت کی بناء پرکئی افراد خود کو مختلف تکالیف اور بیماریوں میں بھی مبتلا کرلیتے ہیں، جن کے نتیجے میں دینی اور دُنیاوی دونوں معمولات متاثر ہوجاتے ہیں۔عموماً رمضان المبارک میں زیادہ تر افراد پیٹ کے عوارض سے متاثر ہوتے ہیں، جس کی ایک وجہ بسیار خوری ہے ۔یوں بھی اس مہینے میں غذائی معمولات اور اشیاء خور و نوش کی تبدیلی سے معدے کے افعال بگڑ جاتے ہیں، اُس پر اگر لوگ کھانے پینے میں احتیاط بھی نہ برتیں۔جسمانی ضرورت سے کہیں زیادہ کھائیں پئیں تو معدے کا بگڑنا تو لازم ہے۔سو، ہم ذیل میں طبِ نبویﷺ کی روشنی میں کچھ غذائی مشورے اور احتیاطی تدابیر پیش کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ کم خوراکی باعث ِصحت اور خوش خوراکی باعثِ امراض ہے۔لہٰذا اسلام کا یہ سُنہری اُصول ہمیں رمضان المبارک میں بھی یاد رکھنا چاہیےکہ’’کھائو پیو، مگر اسراف نہ کرو۔‘‘اوراسراف میں وہ غیرضروری کھانا بھی شامل ہے، جو کسی بیماری کا سبب بنے۔ اس آیت کی بڑی عُمدہ وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیثِ مبارکہؐ سے بھی ہوتی ہے کہ’’نہیں بَھری بنی آدم نے پیٹ سے بدتر کوئی تھیلی۔ کافی ہیں اس کے لیے چند لقمے،جو اس کی کمر کو سیدھا رکھیں اور اگر ضرورت ہو، اس سے زیادہ کی تو معدے کا ایک تہائی حصّہ کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی کےلیے اور ایک تہائی سانس کےلیے رکھے۔‘‘اگر اس اصول پر عمل کرلیا جائے، تو معدے پر غیرضروری بوجھ نہیں پڑےگا اور غذا بھی مکمل طور پر جزو ِجسم بن جائے گی، جس کے نتیجے میں صحت و تن درستی قائم رہتی ہے۔ اس حدیثِ مبارکہؐ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی صحت و تن درستی کا دارو مدار کُلی طور پر معدے کی درستی پر ہے اور اس اصول کو قدیم و جدید تمام اطباء نےبھی تسلیم کیا ہے۔ہمارے یہاں سب سے زیادہ غذائی بے احتیاطی اور خوش خوراکی افطار میں کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں روزہ کھولنے کے بعد معدے میں گرانی، طبیعت بوجھل اور سُست ہو جاتی ہے، لہٰذا اکثریت نمازِ مغرب کے بعد ہی بستر پر ڈھیر ہوجاتی ہے،جب کہ اس وقت، اس بات کا سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ دِن بَھرکے خالی معدے پر فوری طور پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔کھجور سے روزہ افطارکرکے، مشروب یا سادے پانی کا استعمال کیا جائے،تاکہ پانی کی کمی اور معدے کی گرمی دُور ہوسکے۔ بازاری مشروبات سے حتیٰ الامکان پرہیز کریں،کیوں کہ کولڈ ڈرنکس تو عام حالات میں بھی مضر ہیں اور افطار میں تو ان کا استعمال معدے کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ 

اس ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ مشروب ہر لحاظ سے بہترین ہیں۔ مثلاً ستّو، شہد اور پانی کا شربت، دُودھ اور پانی کی کچّی لسّی، کھجور اور کشمکش کا نبیذ وغیرہ۔یہ تمام مشروبات فوری توانائی فراہم کرنے کے علاوہ پیاس کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تازہ پھلوں کا جوس، دہی کی پتلی لسّی، گھر میں تیار کردہ لیموں کی سکنجبین، آش جَو اور ٹھنڈا پانی بھی بہتر ہے۔ مشروبات زیادہ ٹھنڈے استعمال نہ کریں، کیوں کہ دِن بَھر معدہ خالی ہونے کی وجہ سے اس میں حرارت بڑھ جاتی ہے۔ نیز، نزلے، زکام کی شکایت، کھانسی اور گلا بھی خراب ہو سکتا ہے،جب کہ اُدھیڑ عُمر افراد رگوں کے کھنچائو کی تکلیف کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ نیز، لو بلڈپریشر کے مریضوں کے خون کا دباؤ کم ہوسکتا ہے۔ افطار میں موسمی پھلوں کا استعمال بےحد ضروری ہے، خصوصاً ایسے پھل، جن میں پانی کا تناسب زیادہ ہو، مثلاً گرما، تربوز اور خربوزہ وغیرہ۔ 

تربوز خاص طور پر اپنی ٹھنڈک کی وجہ سے پیاس کو فوری تسکین دیتا اور گرمی کے مضر اثرات دُور کرتا ہے۔ اس میں موجود قدرتی گلوکوز جسم کو فوری توانائی پہنچاتا ہے۔عموماً کم زور معدے کے حامل افراد کے لیے تربوز ضرر کا باعث بن جاتا ہے، تو ایسے افراد تربوز کم مقدار میں، کالی مرچ اور ہلکا سا نمک چھڑک کر کھائیں۔ اس کے علاوہ آڑو، خوبانی، کیلے، سیب، چیکو، آم اور پپیتے وغیرہ کا استعمال بھی بہت مفید اور باعثِ تقویت ثابت ہوتا ہے۔ چنا بہت قوّت بخش غذا ہے، افطار میں اس کاکم استعمال جسم کو توانائی فراہم کرتا ہے، جب کہ اگر زائد مقدارمیں کھایا جائے،تو پیٹ کی خرابی کا سبب بن جاتا ہے۔

معدے کے امراض میں مبتلا مریض، ماہِ صیام میں دو باتوں کا خاص خیال رکھیں۔ ایک تو یہ کہ تلی ہوئی اشیاء مثلاً پکوڑے، سموسے، رولز یا اسی قسم کی دیگر اشیاء سے سخت پرہیز کیا جائے، خواہ وہ بازاری ہوں یا گھر کے تیار کردہ۔ یوں بھی ان اشیاء میں غذائیت تو پائی نہیں جاتی، البتہ یہ پیاس میں اضافے، معدے میں جلن اور گرانی کا سبب بن جاتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ پھل کھانے کے کچھ دیر بعد، پانی پیا جائے، ورنہ اکثر کم زور افراد کا معدہ متاثر ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی افطار کے فوراً بعد زیادہ مقدار میں پانی پینے سے طبیعت بھاری اور سُست ہونے لگتی ہے۔ تاہم،نمازِ مغرب ادا کرنے کے کچھ دیر بعد زیادہ پانی پینا بہتر ہے۔ افطار کے اس پروگرام پر عمل سے نہ صرف طبیعت مکمل طور پر ہشاش بشاش رہتی ہے،بلکہ مغرب و عشاء کی نمازیں، تراویح اور دیگر عبادات بھی خشوع خضوع سے ادا کی جا سکتی ہیں۔ 

علاوہ ازیں، نہ تودِن بھرکھٹی ڈکاریں آئیں گی اور نہ ہی اپھارے اور بدہضمی کی شکایت ہوگی، بلکہ عشاء و تراویح سے فراغت کے بعد، افطار مکمل طور پر ہضم ہونے کے باعث بھوک کھل کر لگے گی۔کیوں کہ نماز ،عبادت کے علاوہ ایک ورزش بھی ہے، جس کا نظامِ ہضم پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ تراویح کے بعد رات کاکھانا کھایا جائے،مگر کچھ بھوک چھوڑ کر، کیوںکہ سحری کا وقت زیادہ دُور نہیں ہوتا۔ کھانے میں ہلکی خوراک یعنی دال، سبزی یا ہفتے میں دو تین بار گوشت کا ایسا سالن، جو دال یا سبزی کے ساتھ ملا کر پکایا گیا ہو،استعمال کریں۔ مثلاً توری گوشت، لوکی گوشت، پالک گوشت یا دال گوشت وغیرہ۔ گوشت کے ساتھ سبزی یا دال ملا کر پکانے سے یہ غذائیت سے بَھرپور غذا بن جاتی ہے۔ رات کے لیے یہ کھانا بہت ہی مناسب اور قوّت بخش ہے اور سحری کا وقت ہونے تک باآسانی ہضم بھی ہو جاتا ہے۔ رات کے کھانے یا سحری میں مرغّن اور ثقیل غذائیں ہرگز استعمال نہ کریں۔ 

جیسا کہ تکّے، کباب، کڑاہی، بریانی، قورما اور نہاری وغیرہ کہ عام دِنوں میں بھی یہ اشیاء معدے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ دیر سے ہضم ہونے کے علاوہ معدے اور آنتوں میں خشکی پیدا کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں نہ صرف شدید گرمی اور پیاس لگتی ہے،بلکہ اکثر قبض کی شکایت بھی ہوجاتی ہے، تو دِن بَھر خالی پیٹ رہنے کے بعد(روزے کی کیفیت میں) تو یہ اشیاء اور بھی تکلیف دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔یاد رکھیے،سحری میں ایسی غذائیں استعمال کریں، جو کم زوری کا احساس نہ ہو نے دیں۔ اس ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ غذا تلبینہ سب سے بہتر ہے۔ امریکی ماہرِ غذائیت، ڈاکٹر جیمس کی تحقیق کے مطابق یہ غذا خون میں کولیسٹرول اور شوگر لیول کنٹرول رکھتی ہے اور ہر عُمر اور مزاج کے صحت مند افراد اور مریضوں کے لیے بھی مفید ہے۔نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور پسندیدہ غذا حیس ہے،جسے کھجور، مکھن اور پنیر کی باہمی آمیزش سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ تینوں اجزاء توانائی کا خزانہ ہیں۔اسے کم مقدار میں ٹانک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ 

بُلند فشارِ خون کے مریض اس کے ساتھ دو بڑے چمچے دہی استعمال کریں،جب کہ کولیسٹرول سے متاثرہ مریض اِسے کم مقدار میں استعمال کریں یا اس کے ساتھ بھوسی کا اضافہ کرلیں۔ یہ جسمانی طور پر کم زور افراد اور لو بلڈپریشر کے مریضوں کے لیے ایک نعمت ہے۔حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور پسندیدہ غذا ثرید ہے،جو گوشت اور روٹی کا مرکّب ہے۔ گوشت میں چکن استعمال کی جائے،تو زیادہ بہتر ہے، کیوں کہ وہ زود ہضم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سحری میں دُودھ، شہد، سرکے اور دہی کا استعمال ضرور کریں۔ دُودھ کے ساتھ شہد کا استعمال بَھرپور توانائی کا ضامن ہے کہ اس کے استعمال سے ہاضمہ دُرست رہتا ہے اور بھوک بھی کُھل کر لگتی ہے۔سو، رمضان المبارک میں شہد کو ضرور شاملِ غذا رکھیے۔

(مضمون نگار، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ، کراچی میں بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہی ہیں)

تازہ ترین