• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجٹ ایک معینہ مدت کے لئے آمدنی، وسائل، عوام الناس کو سہولیات کی فراہمی، دیگر اقتصادی امور اور اخراجات کا منصوبہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی وفاقی و صوبائی حکومتیں بجٹ بنا کر ہی حکومتی امور چلاتی ہیں۔ پیر کے روز پنجاب حکومت نے مالی سال2018-19کا 1900ارب 60کروڑ بجٹ پیش کیا جس میں 85ارب 60کروڑ روپے کا ضمنی بجٹ شامل ہے۔ بجٹ صوبائی وزیر خزانہ عائشہ غوث پاشا نے پیش کیا اور حسب روایت اسمبلی میں اپوزیشن نے اعتراضات کا طومار باندھے رکھا۔ بجٹ دراصل ملکی و صوبائی ضروریات کے علاوہ خود حکومت کی ترجیحات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس کا اندازہ مختلف شعبوں کے لئے مختص کی جانے والی رقم سےہو تا ہے۔ بجٹ کے بعد عموماً اپوزیشن کی طرف سے تنقید کے نشتر آزمائے جاتے ہیں، جو بسا اوقات بے جا بھی نہیں ہوتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی کاوش کے محاسن کو سرے سے فراموش کر دیا جاتا ہے۔ کسی بھی حکومتی کارکردگی پر نقد و نظر کا اولین پیمانہ یہ ہے کہ اسے عوامی مسائل اور سہولیات کے تناظر میں دیکھا اور پرکھا جائے۔ صوبے بھر میں عوام کی اولین ضروریات تعلیم، صحت کی سہولیات، پینے کا صاف پانی اور ہمہ قسم کا انفراسٹرکچر ہے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ شعبے اب صوبوں کے پاس ہیں۔ اس اعتبار سے پنجاب کا بجٹ احسن ہے کہ جن شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ان کا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔ ضمنی بجٹ کے تحت سب سے زیادہ فنڈز ایجوکیشن سیکٹر کے لئے 19ارب 86کروڑ روپے، سڑکوں اور پلوں کے لئے 19ارب 10کروڑ اور ہیلتھ سروسز کے لئے 17ارب 16کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کو اولین ترجیح دینا قابل ستائش ہے۔ حکومت کو مہنگائی اور بیروزگاری کو لگام دینے کے بھی اقدامات کرنے چاہئیں تھے بہرکیف اب یہ آئندہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پنجاب کا بجٹ اس لئے بہتر قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس میں عوام کو تعلیم و صحت اور انفراسٹرکچر کی سہولیات کی فراہمی کو بہتر بنانے کی کاوش کی گئی ہے۔

تازہ ترین