• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچوے کی ناک میں پھنسے اسٹرا سے شروع ہوئی کہانی

2015 میں بحر الکاہل اور بحر ہند کے سمندروں میں پائے جانے والے ایک کچھوے کی ناک میں پھنسی پلاسٹک اسٹرا کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد پلاسٹک اسٹرا کو ایک سہولت کے طور پر استعمال کرنے والوں کے نظریے تبدیل ہو گئے۔

یہ ایک حیران کن بات ہے کہ کم وقت کے لئے استعمال کیا جانے والا یہ چھوٹا سا آلہ اتنا بڑا نقصان پہنچا سکتا ہے۔

سمندر میں پھینکے جانے کے بعد یہ گلنے کے عمل سے گزرنے کے بجائے سمندری مخلوقات کی غذا بن جاتا ہے۔

استعمال شدہ پلاسٹک اسٹرا کا ایک یہ بھی نقصان ہے کہ انہیں دوبارہ استعمال میں نہیں لایا جا سکتا یعنی وزن ہلکا ہونے کی وجہ سے انہیں ری سائیکلنگ کے پروسیس سے نہیں گزارا جا سکتا۔

کچوے کی ناک میں پھنسے اسٹرا سے شروع ہوئی کہانی

نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں اسٹرا پھینکےجا تے ہیں جبکہ برطانیہ میں سالانہ تقریباًچار ارب چالیس کروڑ اسٹرا پھینکی جاتی ہیں۔

سمندروں میں پائے جانے والے دس لاکھ پرندے اور ایک لاکھ دودھ پلانے والے جانور وں کی ہلاکتوں کا سبب پلاسٹک ہے۔

رپورٹ کے مطابق 44 فیصد سمندری پرندوں کی کئی اقسام، 22 فیصد وہیل اور ڈالفن، سمندری کچھوے اور مچھلیوں کی دیگر اقسام اندرونی اور بیرونی جسمانی اعضاء پلاسٹک کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔

پلاسٹک’ اسٹرا ‘کا انجام

پلاسٹک کی مختلف اقسام میں اسٹرا سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے جس کے پیش نظر اب امریکا ، فلوریڈا ، انگلینڈ، کیلیفورنیا کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں اسٹرا پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

جب پلاسٹک پر پابندی عائد بھی نہیں کی گئی تھی تو ایک کمپنی نے اپنی مدد آپ کے تحت آلودگی پر قابو پا نے کی کوشش کرتے ہوئے پلاسٹک اسٹرا کی جگہ بانس کی اسٹرا کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ہم اندازہ نہیں کر سکتے کہ صرف ایک ہوٹل کے اس اقدام سے سمندر میں پھینکے جانے والے لاکھوں اسٹرا سے نجات مل سکتی ہے۔

دراصل یہاں لوگوں کو یہ سمجھانا اہم ہے کہ اسٹرا استعمال کرنا ایک غیر ضروری عمل ہے سوائے ان لوگوں کے جو اس کے محتاج ہوں جیسے کہ معذور افراد یا وہ جن کے مسوڑھے کمزور ہوں لہذا اس کے استعمال سے بچ کر ہی ماحول کو پاک کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین