سراج الائمہ حضرت نعمان بن ثابت امام اعظم ابو حنیفہؒ اپنی مجلس میں حاضر کسی شخص کو بھوکا دیکھتے تو اسے کھانا کھلاتے، بیمار ہوتا تو علاج کے لیے رقم دیتے، کوئی حاجت مند ہوتا تو اس کی حاجت روائی کرتے۔ اگر کوئی زبان سے حاجت بیان نہ کرتا تو اس کے کہے بغیر فراست باطنی سے اس کا مدعا جان لیتے۔اس حوالے سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے جسے علامہ موفق بن احمد مکیؒ نے تحریر کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ کوفہ میں ایک مال دار شخص تھا۔ بڑا خود دار اور حیا دار تھا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ وہ غریب اور محتاج ہوگیا۔ وہ بازار جا کر مزدوری کرتا،مشقت اٹھاتا اور صبر کرتا۔ ایک دن اس کی بچی نے بازار میں ککڑی دیکھی۔ گھر آ کر ماں سے ککڑی لینے کے لیے پیسے مانگے ،مگر ماں اس کی خواہش پوری نہ کرسکی۔ گھر کا سامان پہلے ہی بک چکا تھا، بچی رونے لگی۔ اس شخص نے امام اعظم ؓ سے امداد لینے کا ارادہ کیا۔
وہ آپ کی مجلس میں آکر بیٹھا، مگر شرم و حیا اور خود داری کے باعث اس کی زبان نہ کھل سکی۔ امام اعظم ؒ نے اپنی فراست سے بھانپ لیا کہ اس شخص کو کوئی حاجت درپیش ہے، مگر حیا کے باعث یہ سوال نہیں کررہا۔ جب وہ شخص اٹھ کر وہاں سے جانے لگا تو آپ نے ایک آدمی اس کے پیچھے روانہ کردیا۔ اس شخص نے گھر جا کر اپنی بیوی کو بتایا کہ میں شرم کے باعث اس بابرکت مجلس میں کچھ نہ مانگ سکا۔
امام اعظمؓ کے بھیجے ہوئے آدمی نے واپس جا کر یہ سب احوال امام صاحب کے گوش گزار کردیا۔جب رات کا ایک حصہ گزر گیا تو امام اعظمؓ پانچ ہزار درہم کی تھیلی لے کر اس شخص کے گھر پہنچ گئے اور دروازہ کھٹکٹھا کر فرمایا ’’میں تمہارے دروازے پر ایک چیز رکھے جا رہا ہوں، اسے لے لو‘‘ یہ فرما کر آپ واپس آگئے۔ اس کے گھر والوں نے تھیلی کھولی تو اس میں پانچ ہزار درہم تھے اور ایک کاغذ کے پرزے پر یہ تحریر تھا، ’’تمہارے دروازے پر ابو حنیفہ یہ تھوڑی سی رقم لے کر آیا تھا، یہ اس کی حلال کی کمائی ہے،اسے استعمال میں لائو اور واپس نہ کرنا۔‘‘(مناقب للموفق)