• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قرضوں کے بڑھتے نقصانات کا ازالہ کیسے کیا جائے

پانچ برسوں میں پاکستان پر قرضوں کا بوجھ دوگنا اور ہر پاکستانی ایک لاکھ تیس ہزار روپے کا مقروض ہوگیا، پرانے قرضے چکانے کے لیے نئے قرض اٹھانے پڑیں گے۔ اقتصادی سروے کے مطابق مارچ 2013 میں ملک کے مجموعی قرضے 13626 ارب روپے تھے، جو جون 2013 میں اسحاق ڈار کی جانب سے پہلا بجٹ پیش کیے جانے تک 14318 ارب ہوگئے، پانچ سال میں ملک پر واجب الادا قرض تقریبا دگنا ہو گیا ۔اسٹیٹ بینک کے مطابق دسمبر 2017 تک قرضوں کا مجموعی حجم 26815 ارب روپے تک جا پہنچا، بیرونی قرضے 9817 ارب روپے رہے ، آئی ایم ایف نےاس کشکول میں6.91 ارب ڈالر ڈالے نجی شعبے کے بینکوںنے ملک پر 1319 ارب کے قرضوں کا بوجھ ڈالا۔ اندرونی قرضوں کا حجم بھی 16000 ارب روپے تک پہنچ گیا۔حکومت نے جاتے جاتے اپنے اقتدار کے آخری 8 ماہ میں 2140 ارب روپے کے قرضے حاصل کر لیے، روپے کی قدر میں اچانک پانچ فیصد کمی سے بھی قرضوں کے بوجھ میں نمایاں اضافہ ہوا۔

’’قرضہ بڑھنے کی وجوہ کا پتہ چلاتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے جامع حکمت عملی اپنائی جائے اور اس سلسلے میں اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے۔پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو مضبوط کرتے ہوئے سرمایہ کاری کو ملکی سطح پر فرغ دیا جائے۔ٹیکس کی وصولی کے نظام کو بہتر کیا جائے اور ایسے ایماندار ٹیکس افسر مقرر کیے جائیں جو ٹیکس کی رقم قومی خزانے میں ڈالیں۔‘‘

آئی ایم ایف کے مطابق اس سال جون تک پاکستان کے ذمے بیرونی قرضے 93 ارب ڈالر ہوجائیں گے جبکہ اگلے مالی سال کے اختتام تک بیرونی قرضوں کی سنچری مکمل ہو جائے گی۔ قرضوں میں اضافے کے باعث اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 15.6 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔دو 2013-14 میں ہر پاکستانی تقریبا 82 ہزار روپے کا مقروض تھا لیکن 2018 میں یہ قرضہ ایک لاکھ تیس ہزار روپے تک جا پہنچا۔انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کو قرضوں کی واپسی کیلئے مزید قرض لینا پڑیں گے۔قرضو ں کے بڑھتے نقصانات کے سدباب کے لیے سب سے پہلے تو ہمیں کرپشن کی بیخ کنی کرنی ہوگی،دوسرے قرضوں کو تیاگ کر ٹیکس وصولی کے سسٹم کو منظم کرنا ہوگا ۔اسی بات کی تائید کرتے ہوئےماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کہتے ہیںکہ پاکستان میں کرپشن بہت بڑھ رہی ہے، معاشی کرپشن بھی بڑھ رہی ہے اور انٹیلکچوئل (intellectual) کرپشن میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے ہم سب کو مل جل کر ایسے اخلاقی ضابطے کو مرتب کرنا ہوگا جس کے تحت کرپشن میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں ۔اس ضمن میں قانون ساز اداروں کو اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کرنے ہوں گے جو اسی صورت ہی ممکن ہو سکے گا جب تک ہم تنخواہوں کا توازن درست کرتے ہوئے موجودہ مہنگائی کے مساوی نہیں لے آتے۔جس رفتار سے اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے اس لحاظ سے آمدن آدھی ہے۔اس لیے اس فرق کو ختم کرنے کے لیے کرپشن کی جانب ذہن مائل ہوتا ہے۔اس کی مثال اس طرح لیں کہ اگر مہینے بھر آپ کا بجٹ بیس ہزار ہے اور تنخواہ دس ہزار تو لامحالہ دیگر ناجائز ذرائع سے زائد آمدنی کا طریقہ ڈھونڈا جائے گا یا پھر اس فرق کو کم کرنے کے لیے دوسری ملازمت یا کوئی کاروبار کرنا ہوگا۔اس لیے اگر ہم واقعی اپنی معیشت کو صاف ستھرا بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں تنخواہوں اور خدمات کی صورت معاوضہ پیکیج کو بڑھانا پڑے گا۔ملک کے طاقت ور طبقےاشرافیہ، حکومت، عدلیہ پر بہت زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ 5 ہزار ارب روپیہ سالانہ لوگ ٹیکس چوری کرتے ہیں، یہاں طاقت ور طبقوں پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو فی کس آمدنی کے لحاظ سے بہت زیادہ چیریٹی دیتا ہے۔ ساڑھے 4 سو ارب روپیہ سالانہ چیریٹی ڈونیشنز آتے ہیں۔ ہماری معاشی پالیسی یہ ہے کہ طاقت ور طبقوں ، ٹیکس چوری کرنے والوں ، قومی دولت لوٹنے والوں کو مراعات دی جائیں، اس کا بوجھ 21 کروڑ عوام اور پاکستان کی معیشت پر ڈال دیا جائے۔ 20 لاکھ افراد ہر سال مارکیٹ میں آتے ہیں۔ جن کو روزگار چاہیے۔ روزگار کہاں سے آئے گا جب آپ کی معیشت ہی گرو نہیں کررہی! کُل 12 لاکھ افراد ٹیکس ریٹرن دیتے ہیں۔ایک کروڑ افراد ایسے ہیں جن کی آمدنی 4۔ 5 لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔پاکستان میں اس وقت کرپشن ، ٹیکس چوری، شاہانہ اخراجات سے 8 ہزار ارب روپیہ سالانہ قومی خزانے کو نقصان ہورہا ہے، یعنی 22 ارب روپے روز۔

قرضوں سے نجات کی حکمت عملی

افراطِ زر پر قابو پانے کے لیے انتظامی اخراجات میں کمی لاتے ہوئے اپنے شاہی اخراجات کو کم اور وی آئی پی کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے کم از کم قرضے لینے ہوں گے۔دوست ممالک سےبلاسود قرضے کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی ۔عوام کو باور کرانا ہوگا کہ ایک مخصوص رقم امداد کے طور پر لینے سے ملک قرضے کا کشکول توڑ سکتا ہے۔اس ضمن میں ان کے لیےمراعات کے پیکیج کا اعلان کیا جائے اور پچھلے تجربے ’قرض اتارو ملک سنوارو‘ کے سقم کو دور کرتے ہوئے اس بارے میں پائی جانے والی عوامی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔سمندر پار پاکستانیوں سے اپیل کی جائے کہ وہ ملک کو قرض کی دلدل سے نکالنے کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ بھیجیں۔قرضہ بڑھنے کی وجوہ کا پتہ چلاتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے جامع حکمت عملی اپنائی جائے اور اس سلسلے میں اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے۔پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو مضبوط کرتے ہوئے سرمایہ کاری کو ملکی سطح پر فرغ دیا جائے۔ٹیکس کی وصولی کے نظام کو بہتر کیا جائے اور ایسے ایماندار ٹیکس افسر مقرر کیے جائیں جو ٹیکس کی رقم قومی خزانے میں ڈالیں۔اس ضمن میں عوام کو خبردار کیا جائے کہ وہ کسی افسر کو نقد رقم دینے سے گریز کریں ،انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر تصدیق کرنی چاہیے۔زرعی شعبے کو ترقی دئیے بغیر ملک خوشحال نہیں ہوسکتا۔چھوٹےکاشتکاروں کو آسان قرضوں کی ادائیگی کو یقینی بناتے ہوئے بین الاقوامی معیار کی گندم چینی چاول پھل فروٹ پیدا کرکے بیرونِ ممالک بھیج کر کثیر سرمایہ حاصل کرسکتے ہیں۔اس کی کمزور معاشی حالت اسے جدید مشینری کے استعمال سے روکتی ہے ۔اس حوالے سے حکومت خاموش تماشائی بننے یا نعرے بازی کو چھوڑ کر کسانوں کے حالات بہتر بنانے کی سعی کرے۔انسانی سرمائے کو فن اور ہنر سے آراستہ کرتے ہوئے انہیں بہتر تعلیم و صحت کی سہولیات دینی ہوںگی تاکہ وہ پیداوار میں اپنا فعال کردار ادا کرسکیں۔تعلیم و صحت کو اولین ترجیح دیتے ہوئے ایسی معاشی پالیسی اپنانی ہوگی جس سے زیادہ سے زیادہ ملکی وسائل پر انحصار کیا جائے۔اسکولوں، کالجوں ،یونیورسٹیز میں سائنس فیئرز کا انعقاد کرتے ہوئے ایسے موجد طالبِ علم سامنے لائے جائیں جو اپنی تخلیقی قابلیت سے پاکستان کا ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے لےجاسکیں۔ اس کے لیے ہمیں علم دوست معاشرہ بنانا ہوگا جس میں سائنس کلچر کے انقلاب سے صدیوں کا سفر زمانے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ 

تازہ ترین