• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاق کے زیرانتظام 7 ایجنسیز اور چار فرنٹیئر ریجن پرمشتمل ’’علاقہ غیر ‘‘ یعنی فاٹا کو اپنا بنانے کے خواب کی تعبیر کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں، موجودہ جمہوری حکومت کے پانچ برسوں سے کئے دعوے سچ ہورہے ہیں نہ یہ کڑا امتحان تمام ہو رہا ہے، وطن کا وہ حصہ جو اپنا ہے اس سے بدستور غیروں سا سلوک کیا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت اور اس کے اتحادی اپنے ’’کھابوں‘‘ میں تو حصہ دار اور یک جان دو قالب ہیں، لیکن فاٹا کے محروم علاقے اور وہاں کےغیور و بہادر عوام کی بحالی و آزادی کی بات ہو تو عدم اتفاق ہوجاتا ہے، حیلے بہانوں کا راگ الاپا جاتا ہے۔ ملک کی منتخب پارلیمنٹ میں بیٹھی، تمام اپوزیشن جماعتیں فاٹا کے ترقی و خوشحالی کے دور کے آغاز کے لئے رضامند اور خیبرپختونخوا صوبے کے ساتھ فوری انضمام کی حامی ہیں لیکن بدقسمتی کی انتہا ہےکہ وفاق اور بلوچستان صوبے میں اپنے خاندانوں سمیت اقتدار کےخوب مزے لوٹنے والے اپنے روزگار کے چھن جانے سے خوف زدہ ہو کر ’’میں نہ مانوں‘‘ پر مصر ہیں ۔ فاٹا والوں کی نظر میں دو ’’لاڈلے‘‘ بدستور مخالفت اور ’’ریفرنڈم‘‘ کے مطالبے کے نام پر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ دوسرا جمہوری دور 31مئی کو اپنی آئینی وقانونی مدت پوری کررہا ہے لیکن پاکستان کو قبول کرکے اس کاحصہ بننے والے، اس کی بقا کی خاطر مال وجان قربان کرنے والےاسی آئین و قانون کی عمل داری اور ترقی و خوشحالی کے دور سےتاحال محروم ہیں۔
زمینی حقائق گواہ ہیں کہ پاکستان کی مغربی سرحدوں کا محافظ علاقہ چار دہائیوں سےعالمی لڑائی کی تجربہ گاہ اور اسٹرٹیجک ڈیپتھ کا شکار ہوکر بربادی کا شکار ہے، بلاشبہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے خواب کی تعبیر پانا لازمی امر اور پاکستان کی بقا و ترقی کا ضامن ہے، بظاہر کہا جا سکتا ہے کہ دیر آید درست آید، فاٹا کو اپنا بنانےکےعہد کا بڑا فیصلہ کر لیا گیا جس سے ’’علاقہ غیر‘‘ پاکستان کا مضبوط بازو اور ریاست کی طاقت کا سرچشمہ ثابت ہوگا۔ جہاں دیدہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی نے یقیناً مقامی اکابرین ،مشران ،سرداروں اور عوام کی رائے لی ہوگی تو انہیں اپنی تیارکردہ رپورٹ اور اس کےحقائق کو بند کمرہ اجلاسوں نہیں پوری قوم کےسامنے رکھنا چاہئے، یہ بھی بتانا چاہئےکہ ان کےہم نوالہ ریفرنڈم کا مطالبہ کرکے رکاوٹ کی وجہ کس بنیاد پربن رہے ہیں اگر یہ اتنا ہی ضروری تھا تو ریفرنڈم اس وقت کیوں نہیں کرایا گیا جب کمیٹی نے کام شروع کیا تھا؟ سیاسی و عسکری قیادت نے حالیہ اجلاسوں میں فاٹا اصلاحات کے ایک بڑےاہم منصوبے کو سیاہی سے کاغذوں پر منتقل کردیا ہے تاہم عملی اقدام کی ٹائم لائن کوئی نہیں جانتا۔ باخبر ذرائع بتاتے ہیں فاٹا کو پاکستان کا فعال حصہ بنانے میں تین اہم بنیادی رکاوٹیں ہیں۔ انتظامی، معاشی اور سیاسی۔ جب تک ان تین بنیادی مسائل کے حل کے لئے باقاعدہ اور منظم منصوبہ بندی نہیں کی جاتی، عالمی مفادات کی مداخلت کا راستہ بند نہیں کیا جاتا، جب تک ان تمام معاملات کوسیٹل نہیں کیا جاتا حالات بدلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔ فاٹا اصلاحات کے جامع منصوبہ پرراقم کو بتایا گیاہے کہ فاٹا کے عوام اور عسکری قیادت کی منشا ہےکہ دہشت گردی کےخلاف کامیاب فوجی آپریشنز کےبعد اب سویلین کنٹرول میں اضافہ ہونا چاہئے، انتظامی معاملات بہتر ہونے سے گورننس اور معاشی اصلاحات ہوسکیں گی جبکہ ان علاقوں میں بعض مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ’’ویسٹڈ انٹرسٹ اور ایجنڈے‘‘ پر کاری ضرب بھی لگائی جاسکے گی تاکہ آزادانہ سماجی اور سیاسی دور کا آغاز ہوسکے۔ وزیراعظم عباسی نے کابینہ اور پارلیمانی کمیٹی سے منظوری بھی حاصل کرکے تحریری اعلان فرمایا ہے کہ فاٹا انضمام اور اصلاحات پر عمل کے لئے اتفاق ہوگیا ہے لیکن ہنوز دلی دور است..... یہ بات وہ دس ماہ کے دور میں کئی مرتبہ فرما چکےہیں لیکن محض الفاظ عریاں حقیقت کی پوشاک کیسے بن سکتے ہیں؟ وعدے دعوے اور نعرے اپنی جگہ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے قوم کو سچ بتانا ہوگا تاکہ شکوہ شکایتوں، محرومیوں اور زیادتیوں کا مکمل ازالہ ہوسکے۔ بتانا پڑے گا کہ فاٹا میں دہشت گردوں کے ہاتھوں کتنےشہید ہوئے اور کتنے زندگی بھر کے لئے محتاج ہوئے؟ ’’ان دیکھے دشمن‘‘ کے خلاف پے در پے آپریشنز کے نتیجے میں غریب الوطن ہونے والے تباہ حال کتنے اور کہاں ہیں؟ نامساعد حالات اور مسلسل بمباری کے بعد ذہنی کرب و انتشار کا شکار خاندانوں کی زندگی بحال کیسے کی جائےگی ؟ وطن کی بقا کی جنگ میں گھر بار، کھیتی باڑی، مال مویشی، دکان وکاروبار حتیٰ کہ سب کچھ چھوڑنے والوں کی کیمپوں میں بھوک، گرمی، سردی، طوفانوں اور بارشوں سے لڑائی کب ختم ہوگی؟ مذہب کی غلط تشریح کر کے نوجوانوں کو بہکانے والوں کے استرداد کیلئے معصوم نوجوانوں کے لئے پرامن و خوشحال زندگی کا متبادل بیانیہ کیا ہوگا؟ تباہ حال اسکولوں، کالجز، اسپتالوں اور دفاتر کی بحالی کتنے دورانیے میں مکمل ہوگی۔ وار زون کو پیس زون میں کیسےتبدیل کیا جائے گا؟
افغانستان کے ساتھ طویل پورس بارڈر پرباڑ اور بائیومیٹرک مینجمنٹ کا دوطرفہ دوستانہ وقابل قبول طریقہ کیا ہوگا؟ عالمی ’’طاقتوروں‘‘کی ’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ کی گردان کا اختتامیہ کیسےممکن ہوگا؟ انضمام کے معاملے پر سیاسی مصلحت سےنجات کب حاصل کی جائے گی ؟ اس مجموعی صورت حال پربعض باخبر حلقے کہتے ہیں کہ حالیہ سیاسی وعسکری قیادت کےمسلسل اجلاسوں میں فاٹا اصلاحات اور خیبرپختونخوا میں انضمام کو موجودہ حکومتی دور میں انجام دینےکا واضح پیغام دیا جارہا ہے۔ فاٹا کی ترقی اور انفراسٹرکچر اور معاشی بحالی کے لئے آئندہ دس سال کے لئے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ہوگا جو کسی بھی دوسرے علاقے میں استعمال نہیں ہوگا۔ این ایف سی میں موجودہ مختص ہونے والی 24ارب روپے کی رقم میں دیگر صوبوں کا پیٹ کاٹ کر فاٹا کے لئے100 ارب روپے اضافی دیئے جائیں گے، انتظامی ،عدلیہ اور مقننہ کے اختیارات کی بحالی کےلئے صدارتی حکم سے ایف سی آر کاخاتمہ اور فی الوقت رواج ایکٹ نافذ کیا جائے گا اور ایک سال میں انصاف کا متوازن نظام لایا جائے گا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے قیام سے عوام کے عدل کےنظام پر اعتماد میں اضافہ ہوگا، ذاتی ومالی مفادات کی سیاسی ملوکیت کے خاتمے کے لئے فاٹا کی 12قومی اسمبلی کی نشستیں برقرار رکھنے، اسی سال اکتوبر میں مقامی حکومتوں کے لئے انتخابات اور آئندہ سال اپریل میں کے پی صوبے میں فاٹا کی نشستوں پر انتخابات کرانے کے اقدامات شامل ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہےکہ ان اقدامات کے لئے آئینی ترمیم کرنا آسان نہیں لیکن اس کو سردرد بنانے کی بجائے فاٹا کے عوام کے ساتھ خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں کرکے دکھانا ہوگا۔ اس امتحان کوختم کرنے کے لئے اب سب کو اپنا حق ادا کرنا ہوگا، اپنےحصے کی شمع جلا کر منزل کی سمیت کا تعین کرنا ہوگا، فاٹا کے موجودہ ناراض جوانوں کو منانا ہوگا، آئندہ آنے والی نسل کے مستقبل کو روشن بنانے کا عہد نبھانا ہوگا۔ خوش نما اقدامات کی نوید اور سہانے سپنوں کو زمینی حقائق سےمنعکس کرنا ہوگا۔ تاکہ وہاں کے عزت دار اور بلند حوصلہ نسلیں برسوں اپنی قربانیوں کا خراج اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ وزیراعظم صاحب آپ کی نیک نیتی شک وشبہ سے بالاتر ہے لیکن وقت کم اور مفاد پرستوں سے مقابلہ سخت ہے،اگر فاٹا اصلاحات کے تحت وہاں انفراسٹرکچر کی بحالی اور عوام کی خوشحالی کے راستے میں کوئی ملکی مفاد وسلامتی سے متصادم امر نہیں تو علاقائیت ،قومیت، لسانیت ،مذیب اور فرقہ واریت کی بنیاد پرقوم کو تقسیم کرنے کا سلسلہ بند کرنے کے ٹھوس اقدامات اور نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کرنےکی روایات کا آغاز کریں۔ اچھے کام کی شروعات کی ہےتو پھرپایہ تکمیل پہنچانے کا کارنامہ بھی کر جائیں کہ تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین