• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگ نیوز

روبینہ تحسین بینا

سید ضمیر جعفری کا شمار اُردو کے ممتاز مزاح نگار شعراء میں ہوتا ہے۔ وہ یکم جنوری 1916ء کو جہلم کے ایک گاؤں چک عبدالخالق میں پیدا ہوئے۔ تعلیم جہلم، اٹک اور لاہور سے حاصل کی۔ وہ دوسری جنگ عظیم میں فوج میں شامل ہوئے ۔ 1950ء میں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا دوبارہ فوج میں آگئے۔ اُن کا 16 مئی 1999ء میں انتقال ہوا۔اُن کی انیسویںبرسی کےحوالےسے ایک مختصرمضمون نذر قارئین ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیّد ضمیر جعفری ایک روشن دماغ رکھتے تھے، اُن کی تحریروں میں محبت اور دلجوئی لاشعوری طور پر نمایاں نظر آتی ہے۔ اُن کی مزاحیہ شاعری بھی مسکراہٹوں اور آنسوئوں کا مرکب ہے۔ بعض تحریریں پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے احساسات کی اس سے بہتر ترجمانی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ ان کی طبعیت میں ٹھہرائو تھا اور تحریروں میں گھنے درختوں جیسی چھائوں۔ ان کی تحریریں غوروفکر کے ایسے مناظر اور ایسی جیتی جاگتی تصویریں ہیں کہ اگر ان کو قوّت گویائی مل جائے تو ان کا ہر سانس امن و محبت پکارے۔

یوں تو ہر تعلق اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، لیکن جو تعلق ہمارے اور ضمیر صاحب کے گھر کا تھا، بڑا ہی بے لوث تھا۔ تقدّس اور معصومیت بھرا سانولا چہرہ، بچپن ہی سے میرے دل میں گھر کر گیا اور اب بھی وہی چہرہ میرے اردگرد گھومتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب بھی میں ان کے زیر سایہ ہوں، ان کی گفتگو میں جو شگفتگی بچپن سے دیکھتی آ رہی تھی، اب بھی میرے ذہن پر نقش ہے۔ یوں ضمیر جعفری میرے مرکزِ خیال بن گئے۔

میرے نانا نذیر احمد شیخ جو خود بھی مزاحیہ شاعر تھے، ان کی اور ضمیر جعفری کی دوستی اپنی آپ تھی۔کیا یارانہ تھا۔ چٹائی پر بیٹھ کر دال، چاول کھا کر اتنی خوشی محسوس کرتے تھے کہ جیسے شاہی محل میں بیٹھ کر مرغن کھانے کھا رہے ہوں۔ دونوں میں عجز و انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ وہ شاعر ہونے کے علاوہ باہمت اور حوصلہ مند انسان بھی تھے۔ ایسے زندہ دل لوگوں کے دنیا سے رخصت ہونے سے ہم محروم ہو جاتے ہیں۔ نانا جان کی وفات کے بعد ضمیر صاحب بڑے کرب سے گزرے، چونکہ وہ بڑے حوصلہ مند تھے، ان میں زندہ رہنے کی امنگ تھی، اس لئے اُنہوں نے اس درد کو کم کرنے کےلیے ہم بچّوں میں خوشیاں بانٹنی شروع کر دیں۔ اس طرح ہمارے اور ضمیر صاحب کے درمیان مضبوط رشتہ استوار ہوتا گیا۔ ہمارے گھر باقاعدگی سے آتے تھے۔ اس لئے وہ ہرایک انسان سے محبت کرتے تھے اور عام لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کی باتیں بڑی مؤثر ہوا کرتی تھیں۔ ضمیر صاحب، جن باتوں پر خود عمل کرتے وہی دوسروں کو نصیحت اور تاکید کیا کرتے تھے تو خود بہ خود اس پر عمل کرنے کو دل کرتا تھا۔ نہ کسی کو برا کہنا نہ کسی کی برائی سننا، بڑی سے بڑی بات پربھی بدمزہ نہیں ہوتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ برائی کا جواب برائی میں کبھی نہ دینا، کیونکہ نفرت، نفرت کوجنم دیتی ہے اور یوں ان کے دیئے ہوئے سبق سے میری زندگی کی مشکلیں حل ہوتی جا رہی ہیں۔

میں یہ بات برملا کہتی ہوں کہ میں نے ان کی شاعری اور تحریروں کا بہ غور مطالعہ نہیں کیا، لیکن میں ان کی پروقار اور بھرپور شخصیت سے مرعوب ہوں۔ اس ہنگامہ خیز زندگی میں جہاں ناانصافی، خودغرضی، حق تلفی نے انفرادی، اجتماعی، معاشرتی اور معاشی امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے، ایسے میں ہم ان کی تحریروں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔میں حکام بالا سے گزارش کرتی ہوں کہ سیّد ضمیر جعفری کی کتابوں کو اسکولوں اور کالجوں کی لائبریریوں میں رکھا جائے اور ان کی تحریروں کو باقاعدہ کورس میں شامل کیا جائے، تاکہ آنے والی نسل اس گھنے پیڑ کے سائے میں بیٹھ کر کچھ حاصل کرے۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ (آمین)

تازہ ترین