• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کون بنے گا نگران وزیراعظم
اب تک یہی پرانی خبر گردش میں ہے کہ نگران وزیراعظم کے نام پر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق نہیں ہوسکا، ہر دو حضرات کو مرحوم میثاق جمہوریت کا واسطہ ہے کہ اس معاملے کو الیکشن کمیشن تک نہ جانے دیں اور پوری دیانت و امانت کیساتھ کسی صادق و امین پر اتفاق کرلیں، ورنہ لوگ کہیں گے ان سیاستدانوں میں اتنی بھی سمجھ بوجھ نہیں کہ نگران وزیراعظم پر متفقہ فیصلہ کرسکیں، ووٹرز ہمارے عہد کے چالاک ہو چکے ہیں وہ گہری نظروں سے وزیراعظم اوراپوزیشن لیڈر پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں، دراصل معاملہ یہ ہے کہ وزیراعظم کا وزیراعظم کوئی اور ہے اپوزیشن لیڈر کا اپوزیشن لیڈر کوئی اور ہے، اور ان دونوں کو مانیٹر کرنیوالا کوئی اور ہے، الغرض ’’کوئی اور ہے‘‘ عنوان کی نظم، بدنظمی کا شکار ہے، لوگ باگ یہ بھی شک کرسکتے ہیں کہ سیاسی مفاد کا ٹکرائو ہے جو فیصلہ نہیں ہونے دیتا، جمہوریت کو کوئی تو حسن اتفاق کا تحفہ دیدیں، اور کسی ایسے شخص پر متفق ہو جائیں جو صاف شفاف انتخابات کرا دے، لوگوں کا کیا لوگ تو کہیں گے دونوں کی ڈوری کسی اور کے ہاتھ میں ہے، اسلئے اب جلدی سے نگران وزیراعظم کے نام پر ایجاب و قبول کر لیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ بیٹے نے والدین کو اپنی شادی کا کلی اختیار سونپ دیا اور ابا جی نے اپنی شادی کا مطالبہ کردیا، اور ماں نے مخالفت کردی کہ ایسا میں نہیں ہونے دوں گی، بہرحال تحفظات مفادات کچھ بھی ہوں اب فیصلہ آجانا چاہئے کیونکہ 31مئی کے بارہ بجنے میں چند روز ہی تو رہ گئے ہیں۔ نگران وزیراعظم نے کونسا کوئی جہیز کا مطالبہ کرنا ہوتا ہے جلدی سے واجبی قدرے زیادہ اچھے پر اتفاق رائے کر لینا چاہئے۔
مسئلہ کیا ہے؟
یہ کہنا کہ پاکستان کو فلاں فلاں خطرہ لاحق ہے دراصل ایک خطرے کو چھپانے کی کوشش ہے اس میں کون کون ملوث ہے یہ ہم نہیں جانتے مگر اتنا جانتے ہیں کہ وطن عزیز خطرناک معاشی بحران سے دوچار ہے اس کے باوجود قرض کی مے کے جام لنڈھائے جارہے ہیں، ہمیں آنے والی بعداز انتخابات حکومت پر ترس آتا ہے کہ وہ بے سازوسامان گھر کا کیا کرے گی اسے کیسے بھرے گی، بھارت، امریکا، ہمارا مسئلہ نہیں، مسئلہ تو یہ ہے کہ مسالہ ہی ختم ہو چکا ہے، جس ملک میں 5ہزار روپے کی دیہاڑی لگانے کیلئے ارکان اسمبلی حاضری لگا کرغائب ہو جائیں وہاں کسی نے غریب عوام کیلئے کیا چھوڑا ہوگا، صرف حکومت ہی اشرافیہ نہیں اپوزیشن بھی اشرافیہ ہے، دولت کی بنیاد پر سیاست و حکومت میں آنے والے افراد بھلا غریب محروم طبقوں کو کیا دینگے؟ ایک طرف حکومت کے پہلے سو دن، ایک طرف حکومتوں کے کئی پانچ سال، اور اب تو پہلے سو دن والوں نے بھی کہہ دیا کہ پورے پانچ سال صرف سو دن ہونگے، ہمیں کسی سے کوئی خطرہ نہیں، خطرہ ہے تو خالی خزانے کیلئے مانگے گئے قرضوں سے، جتنے قرضے لئے گئے اگر ملک پر خرچ ہوئے ہوتے تو نظر آتے یہاں تو دور دور تک بے نامی اثاثے نظرآتے ہیں، عوام سے اپیل ہے کہ ایک دن کی بریانی کے عوض ووٹ کی عزت نہ بیچیں، اور ہمیں تو اب کچھ امید ہو چلی ہے کہ میڈیا نے انہیں سب کچھ بتادیا ہے، کہ اب انہیں لٹیرے لوٹ نہیں سکیں گے، اگر ووٹ ہی دینا ہے تو کسی کم گناہگار کو دیدیں، کسی بے گناہ کی تلاش چھوڑ دیں، یہ جنس دستیاب نہیں۔
٭٭٭٭٭
نئے پرانے کالم
٭....حسن نثار:پہلے 100دن کے ایجنڈے میں اپنے پرانے، نئے کالموں کی گونج سنائی دی۔
اب خدا کرے یہ گونج دکھائی بھی دے۔
٭....نفسیہ شاہ:پی ٹی آئی میں ہر سائز کا لوٹا موجود ہے،
جن لوٹا ساز فیکٹریوں میں یہ لوٹے تیار ہوئے سارا کریڈٹ ان کو جاتا ہے، خان صاحب ان لوٹوں کو وضو کیلئے استعمال کرینگے تو یہی لوٹے ثواب کمائیں گے، اور ان کی کمائیاں عوام کھائیں گے۔
٭....سعد رفیق:تحریک انصاف کا پروگرام جھوٹے دعوئوں اور لفاظی کا مجموعہ ہے،
گویا پی ٹی آئی بھی ن لیگ پر گئی ہے۔
٭....حیدرآباد میں خاتون نے اسپتال کے واش روم میں بچے کو جنم دیدیا،
رکشے سےتو اسپتال کا واش روم بہتر ہے، حکومت سندھ کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے۔
٭....امریکا:ایران نے رویہ تبدیل نہ کیا تو اسے کچل دیا جائے گا،
انکل ٹرمپ اب کسی جنگ عظیم کا زمانہ نہیں، کچلنے والا بھی بچ نہیں پائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین