• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پارہ نمبر9،(خلاصۂ تراویح)
(ڈاکٹر عامر عبداللہ محمدی)
آج کی تراویح میں نویں پارے کی تلاوت ہوگی۔یہ پارہ سورۂ اعراف کے بقیہ حصے اورسورۂ انفال کے ابتدائی حصے پر مشتمل ہے۔ سورۂ اعراف کے بقیہ حصے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تفصیلی قصہ بیان ہوا ہے کہ کس طرح انہوں نے فرعون کے دربار میں اپنے نبی ہونے اور بنی اسرائیل کے نجات دہندہ ہونے کا اعلان کیا اور اپنے عصا اور یدِ بیضا کو بطور ثبوتِ نبوت پیش کیا ،لیکن فرعون اور اس کے درباریوں نے ان کی نبوت کے مقابلے کے لیے ساحروں اور جادوگروں سے مدد چاہی اور اللہ تعالیٰ نے حق کو غالب کیا،جادوگر حق واضح ہونے کے بعد سجدے میں گرگئے اور اپنے ایمان کا اعلان کردیا تو فرعون بجائے ایمان لانے کے انتقامی کارروائی پر اتر آیا۔ قومِ فرعون پر طوفان، ٹڈیوںکے سیلاب، جوئیں، مینڈک اور خون کے عذاب آتے تو وہ جھوٹے وعدے کرتے کہ اے موسیٰ، اگر آپ یہ عذاب دور کرادیں تو ہم ایمان لے آئیں گے، لیکن جب اللہ تعالیٰ عذاب دور فرمادیتا تو وہ پھر سے عہد شکنی کرنے لگتے۔
اگلے رکوع میں موسیٰ علیہ السلام کے چالیس راتوں کے لیے کوہِ طور پر جانے اور اللہ تعالیٰ کے دیدار کی خواہش کرنے اور پھر پہاڑ کے ریزہ ریزہ ہونے اور موسیٰ علیہ السلام کی اللہ تعالی کے حضور توبہ کا بیان ہے۔
اگلے رکوع میں موسیٰ علیہ السلام کی غیر موجودگی میں سامری کے بچھڑے کوخدا بنانے اور موسیٰ علیہ السلام کا واپس آکر اپنے بھائی ہارون علیہ السلام پر غضب ناک ہونے کا بیان ہے۔
اس کے بعدعہدِ الستُ کا ذکر فرمایا گیا کہ اسی عہد کو یاد دلانے کے لیے ہر دور میں انبیاء ؑاور رسل مبعوث ہوئے۔
بلعم بن باعوراء کا قصہ بیان کیا گیا کہ فتح مصر کے بعد جب بنی اسرئیل کو قوم جبارین سے جہاد کرنے کا حکم ملا تو جبارین ڈرگئے اور بلعم بن باعوراء کے پاس آئے کہ کچھ کرو، بلعم کے پاس اسم اعظم تھا، اس نے پہلے تو اس کی مدد سے منع کیا، مگر جب انہوں نے رشوت دی تو یہ بہک گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرئیل کے خلاف بد دعائیہ کلمات کہنے شروع کیے، مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ وہ کلمات خود اس کے اور قوم جبارین کے خلاف نکلے، اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان نکال کر اسے کتے کی طرح کردیا۔
آگے آیات میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا کہ بہت سے جنّ و انس تو پیدا ہی جہنم کے لیے کئے گئے ہیں جو دل کے باوجود حق بات کو سمجھنے کے لیے آمادہ نہیں،آنکھوں کے باوجود اندھے اور کانوں کے باوجود حق سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔فرمایا کہ یہ لوگ مویشیوں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔
اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے ناموں کا ذکر فرمایا گیا۔ قیامت کے بارے میں فرمایا گیا کہ اس کا علم کسی کو نہیں،سوائے اللہ تعالیٰ کے۔سورت کے آخر میں نصیحت کی گئی کہ آپ ﷺلوگوں سے درگزر کیجیے،نیکی کا حکم دیجیے اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیے۔اہل ایمان کو ہدایت کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے دل میں عاجزی ،خوف اور پست آواز کے ساتھ صبح وشام یاد کرتے رہیں اور غافل لوگوں میں شامل نہ ہوجانا۔
اس کے بعد سورۂ انفال کا آغاز ہوتا ہے یہ سورت غزوۂ بدر کے مال غنیمت کی تقسیم کا فارمولا بیان کرتے ہوئےواضح کرتی ہے کہ اس مال میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حصہ،غرباء ،مساکین اور محتاجوں کا حصہ بھی شامل ہے،پانچواں 5/1 حصہ برائے صدقہ و خیرات الگ کر دیا جائےاور باقی5/4 حصہ مسلمان مجاہدوں میں تقسیم کیا جائے،تعداد کی قلت وکثرت کی کوئی اہمیت نہیں،اصل اہمیت جذبے اور ایمان ویقین کی ہے۔اگر مومن مجاہد بیس آدمی ہوں گے تو اللہ انہیں سو کافروں پر فتح دے گا اوراگر سو مجاہد مومن ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر فتح یاب رہیں گے۔ اس کے بعد مومنین کی پانچ صفات خشیت، تلاوت، توکل، نماز اور سخاوت بیان کی گئیں۔
اس سورت میں پانچ بار مومنین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا :(1) آیت: 12 اے ایمان والو! میدان جنگ میں کفار کے مقابلے سے پیٹھ نہ پھیرنا۔(2) آیت: 20 اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو۔(3) آیت: 24 اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولﷺ جب کسی کام کے لیے بلائیں تو ان کا حکم قبول کرو۔(4) آیت: 27 اے ایمان والو! نہ اللہ اور رسولﷺ سے خیانت کرو نہ اپنی امانتوں میں۔(5) آیت: 29 اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہیں ممتاز کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔
اس پارےکی آخری آیت میں فرمایا گیاکہ اللہ ہی تمہارا کارساز ہے اور وہ بہت ہی اچھا کارساز ہے۔
تازہ ترین