• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید ملائیشیا کے بانی مہاتیر محمد کی 92 سال میں انتخابی کامیابی بہترین گورننس کا نتیجہ

جدید ملائیشیا کے بانی مہاتیر محمد کی 92 سال میں انتخابی کامیابی بہترین گورننس کا نتیجہ

مہاتیر محمد جو جدید ملائیشیا کے بانی ہیں اور اپنے خاندان میں نویں نمبر کےاس بچے نے ابتدائی بچپن کا دور کیلے فروخت کرتے ہوئے گزارا۔ لیکن یہ بھی دیکھئے کہ ملائیشیا کے چودہویں انتخابات میں 15سال بعد مہاتیر محمد نے حصہ لیا اور بھاری اکثریت سے جیت گئے ایک ایسے ملک میں جس میں کئی لسانی گروہ آپس میں متصادم تھے ۔ ایک زمانہ تھا کہ ملائیشیا میں ہر دوسرے دن ہنگامے پھوٹ پڑتے تھے۔ ایک غریب کے بچے مہاتیر محمد نے دو عشروں میں ملائیشیا کو دنیا کا جدیدترین ملک بنادیا۔ بانی ملائیشیا کی اس عمر میں جیت ان کے ترقی وہ سنگ میل ہیں جو انہوں نے ملائیشیا کو طے کروائے بلکہ 1997/98 کے کرنسیوں کے بحران میںتھائی کرنسی اور فلپائن کرنسی سے مقابلہ کرتے ہوئے متعدد عذابوں سے نبرد آزما ہو کر اپنے ملک کو بحران سے نکالا اس کی مکمل کہانی تو مہاتیر محمد کی کتاب ’’ایشین ڈیل‘‘ کو پڑھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسٹیس مین وہ ہوتا جو اپنی ذات سے بالاتر ہوکر عوامی خدمات انجام دیتا ہے۔ خود مہاتیر محمد اپنی مذکورہ کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں ’’ملائیشین کرنسی کی قیمت میں 40فیصد کمی سے مراد سالانہ فی کس آمدن میں 200امریکی ڈالر کی کمی ہے۔ جی ڈی پی کے تناظر سے اس کی مقدار 40ارب ڈالر بنتی ہے جس کے ساتھ ہمیں اپنی اسٹاک مارکیٹ میں تقریباً 100ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جس کے یہ معنی ہوئے کہ ہمیں ایک سال کے دوران تقریباً 140 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اگر بے ایمانی بھی ایمانداری سے کی جائے تو اس میں اتنی گنجا ئش ضرور ہے کہ لیڈر شپ ہو معیشت کو زوال سے عروج تک پہنچا سکتی ہے عروج سے زوال تک آنے میں کارل مارکس کہتے ہیں یہ وہ نقطہ ہے جہاں سیاسی حالات انقلاب کا تقاضا پورا کرتے ہوں تو انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ لیکن مہاتیر محمد نے اپنے وژن سے ملائیشیا کو 1998کے بحران سے نکال لیا اور اسی طرح 2008 کےبحران سے بھی ملائیشیا نبرد آزما ہوا کیونکہ اس کی بنیادیں اپنی انسانی سرمائے کی ترقی پر رکھی گئی ہیں۔ انسانی سرمایہ ہنرمند تعلیم یافتہ اور صحت مند ہو تو کایہ پلٹ ہوسکتی ہے۔

ملائیشیا کی برطانوی راج سے آزادی

اس تعارفی مضمون میں یہ بتانا ضروری ہے کہ ملائیشیا پاکستان کے د س سال بعد آزاد ہوا اور اس نے مہاتیر محمد کی قیادت میں کئی صنعتی ترقی کے کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ حالیہ انتخابات دنیا کے لئے عالمی سیاست میں حیرت انگیز کروٹ تھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملائیشیا کے لوگ ملکی اور عالمی سیاست اور معیشت کے بارے میں زیادہ باخبر ہیں۔ حالانکہ سرمایہ دارانہ نظام اس وقت نازک موڑ پر ہے اور بحرانوں کے کئی بھونچال آچکے ہیں۔ 

اس موڑ پر مہاتیر محمد کا دوبارہ وزیراعظم 92سال کے عمر میں بننا ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہے اور یہ تیسری دنیا خاص طور پر پاکستان کے لئے ایک سبق بھی ہے جہاں لیڈر شپ کو ترقی کے معنی ذاتی ترقی سمجھی جاتی ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کا یہ ملک ملائیشیا 32ملین نفوس پر مشتمل ہے اس انتخاب میں ایک طرف مہاتیر محمد تھے جو 22سال پہلے حکمرانی کرچکے تھے۔ اور خود ہی مستعفی ہوگئے۔ دوسری طرف نجیب رزاق تھے جو دوسرے سابق وزیراعظم کے بیٹے ہیں۔ اس وقت ملائیشیا کا سب سے بڑا معیار زندگی بہت مہنگا ہوگیا ہے اسے قوت خرید میں لانا ہے کیونکہ درمیانی آمدنی والے اس کے حصار میں پھنسے ہوئے ہیں ان کی حقیقی آمدن مہنگائی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مہاتیر محمد کا خیال ہے کہ سابق حکومت کو جس طرح گورننس کرنی چاہئے تھی نہیں کی اور عوام کا خیال ہے کہ سابق وزیراعظم کرپٹ تھے جس کے نتیجے میں ان کی گرفت معیشت پر ڈھیلی پڑگئی۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ایک دن ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ریڈیو سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے 20برس پہلے کہا تھا UMNO پارٹی 2020 میں ملک کی معیشت کو زوال کی طرف لے جائے گی اور یہ پاور میں نہیں رہے گی‘‘ اور ایسا ہی ہوا۔ حالانکہ مہاتیر محمد کو بحرانوں کے علاوہ اسلامسٹ برانڈ انور ابراہیم کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کی پشت پر عالمی طاقتیں تھیں۔ اس کے بعد عبداللہ احمد بداوی کا اختتام بھی جلد ہی ہوگیا ۔ 

سابق وزیراعظم اور موجودہ اپوزیشن لیڈر جو انتخابات میں شکست کھایا مہاتیر محمد نے ’’بداوی‘‘ کے بعد اسی نجیب رزاق کو سپوٹ کیا جو ملک کے چھٹا وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوا اس نے کوشش کی کہ 21ویں صدی کے تقاضے پورے کرے لیکن کرپشن نے راستے سے بھٹکادیا ان کی پارٹی میں مفاد پرستوں کے ٹولے کا غلبہ تھا۔ IMDB ایک فنڈ ترقی کے لئے تشکیل دیا جو نجیب کا برین ’’چائلڈ‘‘ تھا اسی میں گھپلوں کی وجہ سے ملائیشیا کی گورننس اور ترقی کو زک پہنچی اور مہاتیر محمد کو دوبارہ 92سال کی عمر میں ملائیشیا کو دوبارہ دیکھنا پڑا۔ مہاتیر محمد کو اس عمر میں ملائیشیا کو وزٹ کرنا ’’ٹروجن ہارس‘‘ کی آمد سے تشبیح دی جارہی ہے اور اب دیکھنا پہ ہے کہ مہاتیر محمد اس عمر میں ملکی معاشی چیلنجز اور اپنے مخالفین سے کس طرح نبردآزما ہوتے ہیں۔

پاکستان اور ملائیشیا کے تجارتی تعلقات

پہلے تو پاکستان کی لیڈر شپ کو مہاتیر محمد سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور ان کے معاشی ماڈل کا تجزیہ کرنا چاہئے۔ پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان ایک فری ٹریڈ ایگریمنٹ ہوا تھا۔ پھر 2008 میں (MPCEPA) پاکستان کلوزر اکنامک پارٹنر شپ معاہدہ ہوا۔ پہلا معاہدہ بہت ہی مربوط تھا اس میں اشیاء و مصنوعات اور خدمات کی تجارت ، سرمایہ کاری اور دو طرفہ معاشی تعلقات جیسے اہم نقاط ہیں لیکن بدقسمتی کی بات دیکھئے کہ پاکستان کی تجارت کبھی بھی 1.5فیصد اپنی کل تجارت کے حجم سے آگے نہ بڑھی ، ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے پاکستان کے وہ آئٹمز جن میںبہت پوٹینشل ہے وہ ملائیشیا کی رعایتی فہرست سے باہر کردیئے گئے۔ ملائیشیا کی کل برآمدات 234 ارب ڈالر ہیں اور پاکستان کو 0.52 فیصد بھی برآمد نہیں کرتے۔ پام آئل ملائیشیا سے وافر مقدار میں درآمد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کاٹن ٹیکسٹائل اور فشری اشیاء کو برآمد کرتا ہے۔ پاکستان کے ماہرین کے مطابق 4.6 ارب ڈالر کی برآمدات کرسکتا ہے لیکن ابھی تک دونوں ملکوں کے درمیان تجارت پر کبھی سیر حاصل گفتگو ہی نہیں ہوئی۔ 

تازہ ترین