• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی،لندن
زندگی کی آسائش نے انسانی زندگی کو نہایت سکون و اطمینان کا عادی بنادیا۔ ہم لوگ ہر معاملے میں سہل، سہج، راحت و آرام، سکھ چین کے قائل ہوکر انہیں کے آسرے ڈھونڈتے ہیں جدیدیت نے ہماری لئے سہارے، بھروسے امیدیں، توقعات، خواہشات، طرح طرح کی تمنائیں پوری کرنے کے مواقع مہیا کئے۔ اسی جدیدیت نے ہمیں سہل پسند بنا دیا ہمیں ان نئی نئی سہولیات نے ذہنی طور پر سکون تودے دیا مگر ہماری صحت کی طرف سے فکر دامن گیر رہتی ہے۔ اسے بھی ہم یہ کہہ کر ہوائی جملوں میں اڑا دیتے ہیں کہ ہولے اب جو ہوتا ہے، آخر ایک دن کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہی ہے۔ مرنا ہی ہے تو سکون کی زندگی گزار کے جائو، عیش کرکے جائو چار دن، تو اس قسم کی ہوائی جملہ بازی چلتی رہتی ہے۔ پہلے جو زندگی میں لوگ طرح طرح کے چیلنج لینے کو بہادری اور اپنی بڑائی سمجھتے تھے وہ آج ہے تو بہت کم لوگوں میں ہے۔ آزمائش، امتحان، تجربات، جانچ، پرکھ، یعنی آزمائشی دور اب نہیں رہا اب آزمائش تیسری دنیا کی پسماندہ بستیوں کے لئے رہ گئی ہیں۔ کتنے ہی دکھ درد کی بات ہے کہ تیسری دنیا کے مکینوں کو پانی ہی مہیا نہیں، بجلی بھی نہیں۔ ایسی کوی بستی نہیں جہاں صاف پانی کسی کو نصیب ہو۔ کراچی اور لاہور کی نہایت پسماندہ بستیاں جہاں کے مکین آےئ روز گٹر کے گندے پانی پر گزارہ کر رہے ہیں۔ اف توبہ تصور کیجئے ان بد سے بدحال لوگوں کا جنہیں بجلی پنکھا اور پانی وہ بھی گندہ! کیسے ان کے یہاں ناپاکی اور پلیدی کو پاکیزگی میں بدلا جائے گا۔ نیز کتنے ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے گھر یا بستی کسی جھیل یا دریا کنارے ہوں گے اور وہ وہاں جاکر اپی گرمی اور پیاس دور کرتے ہوں گے۔ ہم لوگ کس قدر پرآسائش زندگی گزارتے ہیں۔ سکون اطمینان اور سہل پسندی کے قائل ہیں۔180ڈگری سے زیادہ گرمی برداشت نہیں ہوتی فوراً ائرکنڈیشنڈ اور ہر قسم کے پنکھں کا انتظام کرتے ہیں۔ ایسی مشکل زندگی جو لوگ گزار رہے ہیں وہ دراصل خدا کے یہاں ہر قسم کے سہولت و آرام سکھ کے یقیناً مستحق ہوں گے۔ تو بات ہوی رہی تھی آسائش درآسائش کی کہ زندگی کی دوڑ دھوپ اور جتن کرنے کی اب زیادہ ضرور نہ رہ گئی ہاتھوں سے محنت اور پائوں سے محنت اب نہیں رہی ہاں اب ذہنی طور پر محنت ضرور کی جاتی ہے۔ کمپیوٹر، موبائل اور دوسرے اسی قسم کے الیکٹروانک اوزاروں پر۔ اب سے دو سال پہلے تک یہ سن گن بھی ملی تھی کہ بغیر ڈرائیور کے ٹیکسی سروس جلد شروع ہوگی۔ اب معلوم نہیں کیا صورت حال ہے بلکہ امریکا میں تو بڑی بھاری گاڑیاں بغیر ڈرائیور سروس بھی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دیکھئے ترقی یافتہ ممالک بغیر ڈرائیور گاڑی چلانے کی جدید ٹیکنالوجی کو متحرک کر رہے ہیں۔ سنگاپور میں تویہ سروس شروع بھی ہوگئی ہے۔ سنگاپور کے مغربی ضلع اور قریبی علاقوں کے لوگ اپنے گھر پر بغیر ڈرائیور کی ٹیکسی طلب کریں گے بلکہ وہاں پر جب پریکٹس کے دوران بغیر ڈرائیور کی گاڑیوں کو سڑکوں پر دیکھا تو عوام حیرت سے دیکھتے ہی رہ گئے کیونکہ یہ گاڑیاں بغیر ڈرائیور کے تمام قواعد و ضوابط پر عمل کرتی نظر آئیں۔خون بھی خالص نہیں تو خوراک بھی… خراب ہی ہے، عملاً بھی، مثلاً بھی، عموماً بھی، تو کہا جاتا ہے عوام سے کہ بلڈ ڈونر سوسائٹی میں خود کو رجسٹرڈ کرا دیا جائے یا ہو سپٹل کے بلڈ بنک یا لیبارٹری میں خون کا عطیہ دیا جائے۔ نعرے تو وہاں اس قسم کے لگے ہوتے ہیں کہ ’’آپ کے خون کا عطیہ انسانی جان کی بقا کا ضامن ہے۔‘‘ اور وہاں اس بات کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے کہ یہ تازن خون کی فراہمی کا بااعتماد مرکز ہے‘‘۔ اس ادارے کو خون دینے والے فرشتہ صفت لوگ خون تو کسی بھی شرائط کے بغیر نفع و نقصان کے بغیر انسانی زندگی بچانے کو دیتے ہیں وہ بھی رجسٹرڈ اداروں اور بنکوں کو دیتے ہیں کہ صاف خون مریضوں کی جان بچا سکیں مگر معلوم ہوا کہ وہ خون بھی صاف نہیں وہاں بھی ملاوٹ کی جارہی ہے۔ جب لوگوں میں خون عطیہ کرنے کا شعور خوب اجاگر ہوا تو وہاں ملاوٹ کو بھی پنپنے کا شور ہونے لگا۔ یہ بات ہمارے خون میں شامل ہے کہ جب بھی خلوص کی نیت سے کچھ نیک اعمال عمل میں آنے لگیں یا کسی نیک کام کے بیڑے اٹھائے جائیں تو نیک نامی پانے کے بعد یہ ہی نیک اعمال بد نیت ہونے اور کچھ جنوئین نے رہنے کی زد میں آجاتے ہیں یعنی بد بھی ہوتے ہیں اور بدنام بھی ہونے لگتے ہیں۔ خبریں تو آجکل یہی گردش کر رہی ہیں کہ خون کے ارادے اور بلڈ بنک میں خالص خون مل کے نہیں دے رہا ناقص خون کی وجہ سے مریض اپنی طبعی موت سے پہلے ہی مر رہے ہیں۔ حال ہی کی خبر ہے کہ کراچی کے علاقے کورنگی یا ملیر میں کئی بلڈ بنک سیل کر دیئے گئے جہاں خون تو تھا مریضوں کے لئے مگر خالص ہونے کی کوئی گارنٹی نہ تھی۔ اب بتائیے ان نازک معاملات میں بھی کوئی ادارہ بھروسے کے قابل نہ رہا۔ ہم یہاں تک تو مجبوری میں برادشت کر ہی لیتے ہیں کہ گدھے کا گوشت کھا لیا، کتے اور گھوڑے کا گوشت کھا لیا مگر اگر کوئی بیمار ہو تو اسے خون بھی خالص نہ لگے تو یہ بیماروں کا علاج نہیں مگر مارنے والی بات ہوگی۔ خوراک مسئلہ بنی رہی پاکستان میں ہر چیز میں ملاوٹ ہے مگر اس احساس خون کے معاملے میں بھی ملاوٹ ہوگی یہ نہ سوچا تھا ملاوٹ نہ سہی چیک تو کریں کہ کسی نشہ باز کایا کسی مہلک بیماری والا یا ایڈز کے مریض تو خون نہیں دے رہے جن کے خون کے نمونے لیبارٹری میں بھیج کر خون دینے والے کے مرض کا پتہ بھی چل جاتا ہے۔
حال ہی میں برطانیہ میں بھی یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ایک امریکن کمپنی جو برطانیہ کو خون فراہم کرتی ہے اس میں بھیHIVاور ہیپاٹائٹس کے علاوہ ایڈز کے وائرس ملے ہیں جنہوں نے مریضوں کی بیماری میں اضافہ کر دیا جنہیں کینسر یا فالج اور دل کی بیماری تھی وہیں خون لگنے کے بعد معلوم ہوا کہ ان میں ایڈز، ہیپاٹائٹس اورHIVکے جراٹیم بھی پائے گئے ہیں خون کے کچھ پیکٹ امریکہ کی جیلوں سے بھی آرہے تھے جب کہ بیشتر قیدی مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں نیز یہ کہ اداروں کو خون بھیجنے سے پہلے اور بعد میں بھی لیبارٹریز میں چیک اور سکرینScreenکرنا چاہئے کہ کہیں کوئی خرابی تو نہیں مگر دکھ کی بات یہ کہ کسی کو خوامخواہ اور بے گنا ہی میں کوئی مہلک بیماری خون سے لگ جائے تو دکھ ہوتا ہے کہ خون میں بھی خرابیاں ہونے لگیں اور چیزوں کی طرح۔
تازہ ترین