• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور بھارت کے جاسوسانِ اعظم کی مشترکہ تصنیف

پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہیں۔ حکمران ہوں یا عوام۔ یہ دشمنی نسل در نسل چلی آرہی ہے۔ دونوں کی خفیہ ایجنسیاں۔ آئی ایس آئی اور را بھی اس دشمنی کی دھار کو اور تیز کرتی ہیں۔ ان کے سربراہ یعنی جاسوسانِ اعظم ایک دوسرے کے کتنے در پے ہوتے ہوں گے۔ مگر جنوبی ایشیا میں دشمنی کے اس بھڑکتے الائو میں یہ نیا تجربہ ہوا ہے کہ جاسوسانِ اعظم نے ایک مشترکہ تصنیف رَقم کی ہے۔ یہ دَور لکھنے کا نہیں بولنے کا ہے۔ یہ جنرل(ر) اسد درّانی اور اے ایس دلت کے مکالمے ہیں۔ جو دنیا کے مختلف مقامات پر بولے گئے۔ ایک سینئر بھارتی صحافی آدتیا سنہا ان مکالموں کے راوی ہیں۔ کوشش تاریخ ساز ہے۔ کاش کوئی پاکستانی صحافی بھی اس اہم اور حساس تجربے میں شامل ہوتا۔ تو یہ کاوش متوازن ہوتی۔ پھر بھی یہ ایک خوش آئند منصوبہ ہے میرا پہلا تاثر تو یہ ہے کہ یہ جاسوسانِ اعظم خود تو ایک دوسرے کے اتنے قریب آجاتے ہیں کہ ایک دوجے کی غمی شادی میں شریک ہوتے ہیں۔ لیکن دونوں ممالک ایک دوسرے سے اتنے دور ہوجاتے ہیں کہ ان کے عوام مستقل مصائب میں مبتلا رہتے ہیں۔
اس انوکھے تجربے پر بات تفصیل سے ہوگی۔ پہلے میں آپ کو کراچی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں لیے چلتا ہوں۔ جہاں اس کتاب کے ایک باب میں مذکور جناب حافظ محمد سعید کی طرف سے میڈیا کے اعزاز میں افطار کا اہتمام ہے وہ پاکستان کو آئندہ چند ماہ میں پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کررہے ہیں۔ میں ان کے دائیں بیٹھا ہوں اس لیے محسوس کررہا ہوں کہ ان کے لہجے میں اعتماد ہے۔ اپنی اطلاعات پر یقین کامل۔ وہ خبردار کررہے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا رہا ہے۔ پاکستان میں بدلہ لینے کے لئے امریکہ نے افغانستان میں دنیا بھر سے داعش کے جنگجوئوں کو بڑی تعداد میں جمع کرلیا ہے۔ امریکہ افغانستان اور بھارت مل کر داعش کے ذریعے پاکستان میں خونریزی کروائیں گے۔ میڈیا کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے عوام اور حکمرانوں کو ان خطرات کے مقابلے کے لیے تیار کرے۔
جماعت الدعوۃ پر اقوام متحدہ نے ان کے ہاں سے ابو زبیدہ ملنے پر پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب جب ابو زبیدہ کو ہی خطرناک افراد کی فہرست سے خارج کردیا گیا ہے۔ تو ان پر پابندیاں بھی ختم ہونی چاہئیں۔ جماعت اس سلسلے میں اقوام متحدہ سے رجوع کررہی ہے۔
حافظ صاحب الیکشن 2018کے لیے ایک نئے اتحاد کی تشکیل پر نکلے ہیں۔ حیدر آباد میں وہ جمعیت علمائے پاکستان کے ایک گروپ کے سربراہ ابولخیر محمد زبیر سے مل کر آرہے ہیں۔ پیر پگاڑہ سے ان کی میٹنگ ہوچکی ہے اب لاہور میں وہ چوہدری شجاعت حسین سے ملیں گے۔ میڈیا سے اس ملاقات میں ٹی وی چینلوں کے کیمرے نظر نہیں آرہے۔ پابندیوں کی پابندی ہورہی ہے۔
جاسوسی کی یادداشتیں Spy Chronicles, RAW-ISI And the Illusion of Peace آئی ایس آئی اور را ،امن کا فسوں۔ یہ خبر تو صالح ظافر نے سب سے پہلے افشا کی۔ بعد میں اعزاز سید نے جرات صحافیانہ کی اور اے ایس دلت سے دلّی میں فون پر رابطہ کیا۔اب بھی وہ اس کتاب کے انکشافات سے روزانہ قارئین کو آگاہ کررہے ہیں۔ خبر نہیں حکمران اور عوام ان انکشافات سے متاثر ہورہے ہیں یا نہیں ۔ وہ تو اس وقت بیانیے کے مزے اڑارہے ہیں۔ یہ تصنیف اس وقت پاکستان اور بھارت کے بک اسٹالوں پر دعوت مطالعہ دے رہی ہے۔ جب میاں نواز شریف کے بیانیہ جنون کی بدولت ممبئی دھماکے پھر موضوع بحث ہیں۔ جب نریندرا مودی کی پالیسیوں کے باعث پاکستان بھارت پھر سخت کشیدگی سے گزر رہے ہیں۔ اس کتاب کے 255صفحات میں قدم قدم پر اندرونی کہانیاں تڑپتی ملتی ہیں۔ یقیناً بہت اہم کوشش ہے۔ لیکن ہر سطر مجھے تاثر دیتی ہے کہ بھارت کی طرف سے اس دستاویز کے لیے مکمل تیاری تھی۔ اے ایس دلت نے بھی بہت سوں سے مشورے کئے ہوں گے۔ آدتیا سنہا بھی ایک پہلے سے طے شدہ خاکے کی حدود میں رہ کر جنرل (ر) اسد درانی کو تکلم پر آمادہ کرتے ہیں۔ پھر تو وہ جان حیا ایسے کھلتے ہیں کہ بس۔ را کے سابق سربراہ اے ایس دلت بہت محتاط ہیں۔ کم سخن ہیں۔ بھارت کے سیاسی نظام پر تو بات کرتے ہیں لیکن بھارت کے عسکری نظام کو زیر بحث نہیں لاتے ہیں۔ کشمیر پر کئی ابواب موجود ہیں۔ لیکن وہاں سات لاکھ بھارتی فوجی جو مظالم ڈھارہے ہیں ان کی اندرونی کہانی نہیں ملتی ہے۔ نہ ہی ادتیا سنہا اس کے بارے میں سوالات کرتے ہیں۔جنرل(ر) اسد درانی جو آج کل آئی جے آئی کے لیے رقم بانٹنے پر ایف آئی اے کو اپنا بیان ریکارڈ کرارہے ہیں۔ وہ ان مکالمہ کہانی میں کھل کر حقائق بیان کررہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی پالیسیوں پر بھی ناقدانہ گفتگو کرتے ہیں فوجی حکمت عملی پر بھی۔ کارگل کو احمقانہ کارروائی کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔
ہم پاکستانیوں کی یہ خصوصی صفت ہے کہ ہم اپنے ماضی اور حال کے بارے میں بہت صراحت سے باتیں کرتے ہیں کسی احتیاط کو بروئے کار نہیں لاتے۔ پاکستان کی تاریخ کے سنگ ہائے میل تو ان مکالموں سے اپنی اصل شکل میں سامنے لائے جارہے ہیں۔لیکن بھارت کی تاریخ کے غاصبانہ ۔ جارحانہ اقدامات بدستور دبیز گرد میں دبے رہے ہیں۔اسد درانی بجا طور پر یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں پنجابی کو پشتون پر اعتبار نہیں ہے۔پشتون کو مہاجر پر بھروسہ نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر کے لیے کئی ابواب مختص کیے گئے ہیں۔ خود مختار کشمیر کے علمبردار۔ امان اللہ گلگتی کے لیے بھی ایک باب وقف ہے۔ یہ امر قابل تحسین ہے کہ دونوں جاسوسانِ اعظم نے جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کواولیت دی ہے۔ اسد درانی کہتے ہیں کہ انہیں خود مختار کشمیر کے موقف سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ دلت پوچھتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کو تو پریشانی ہے ۔ درانی کا کہنا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بڑی حد تک محتاط ہے۔ بعض لوگ حماقت سے کہتے ہیں کہ خود مختار کشمیر تباہ کن ہوگا۔ مسئلہ کشمیر پر مشرف کے 4نکات کو حقائق سے قریب تر کہا گیا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کو دونوں سخت مزاج اور قیام امن میں رُکاوٹ قرار دے رہے ہیں۔ اور اس بات پر اتفاق کرتے نظر آتے ہیں کہ مودی کی پاکستان پالیسی اجیت ڈوول ہیں۔ یہ پاکستان کے سیاسی۔ فوجی ۔ اقتصادی نظام کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے وزیرا عظم کے قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ خالصتاً پیشہ ور فوجی ہیں۔ ان کا تجربہ انہی امور تک رہا ہے اجیت ڈوول نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ مودی سے وہ جب چاہیں مل سکتے ہیں۔
اور اپنی بات منواسکتے ہیں۔ اکھنڈ بھارت کا نعرہ بھی مکالموں کا موضوع بنا ہے۔
دونوں جاسوسانِ اعظم نے آخر میں قیام امن کے لئے تجاویز بھی دی ہیں۔ یہاں دلت زیادہ واضح ہیں۔ درانی محتاط ہیں۔دلت دونوں ملکوں کے درمیان زیادہ پروازوں۔ کرکٹ کی بحالی۔ ویزے کے اجرا میں نرمی۔کشمیر کو ترجیح۔ دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں۔ قومی سلامتی کے مشیروں۔ خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں اور آرمی چیفس کے درمیان ملاقاتوں پر زور دیتے ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ بھارت کی مسلم آبادی کو عالمی اسلامی فورموں میں نمائندگی دی جائے۔ اسد درانی کی تجاویز یہ ہیں کہ ایسی خفیہ روابط کی ٹیم ہو جس کی سربراہی وزیرا عظم کے اعتماد کےبندے کی بجائے دونوں طرف کی سیاسی پارٹیوں۔ دفتر خارجہ اور افواج کی طرف سے موزوں سمجھی گئی شخصیت کرے۔ اور کسی بحرانی صورت حال میں اچانک ہنگامے یا رد عمل کو روکنے کے لیے میکانزم بنائے۔اس ٹیم کے ارکان زیادہ خوش آئند دعوے نہ کریں۔ پبلسٹی کے لیے بیانات نہ دیں۔ اعتماد سازی کے اقدامات سوچے جائیں اور کیے جائیں۔ یہ تصنیف مجموعی طور پر بھارت کے تدبر اور یکجہتی کو سامنے لاتی ہے۔ جیسا کہ پاکستان کے سیاسی اور عسکری قیادت کی دوریوں ۔ اختلافات اور کشمکش کو اُجاگر کرتی ہے۔
چلتے چلتے یہ بتادوں کہ حکومت پاکستان نے بجٹ کے فنانس بل میں نئے پرانے ارکان اسمبلی اور ان کی بیگمات کی مراعات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ قائم مقام صدر۔ صادق سنجرانی نے اس پر دستخط بھی کردیے ہیں۔صرف موجودہ ہی نہیں سابق ارکان اسمبلی بھی ان سے مستفید ہوں گے۔ 342 قومی اسمبلی کے 104 سینیٹ کے۔ اور سینکڑوں سابق۔ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کو اس عہدے کی اضافی تنخواہ ملے گی۔ ہر رکن کو پاکستان میں تین لاکھ روپے تک مفت سفر کی سہولت پہلے صرف پی آئی اے سے تھی اب پرائیویٹ ایئر لائنوں سے بھی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ارکان بزنس کلاس سے سفر کریں گے۔ میڈیکل سہولتیں گریڈ 22کے افسروں کے برابر ہوں گی۔ یہ بھی موجودہ اور سابق ارکان کے لئے۔ یہ سہولتیں ان کی بیگمات کے لیے بھی ہیں۔
سنجرانی صاحب اب ان سب کے محبوب ہوگئے ہوں گے۔ عوام پر یہ کتنے ارب کا مزید بوجھ ہوگا۔ ملک کا خسارہ اور بڑھے گا۔ ووٹ لینے والوں کی عزت میں اضافہ ہوگا ۔ ووٹ دینے والے کی گردن اور جھُک جائے گی۔ باقی رہے نام اللہ کا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین