• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے میں پہلے بھی کالموں میں ذکرکرچکا ہوں ڈاکٹر صاحب اپنے برتائو سے، اپنی باتوں سے آپ کو حیران کرتے رہتے ہیں۔ ملک کی محبت میں بیرون ملک اپنی رہائش ترک کرکے پاکستان میں منتقل ہوچکے ہیں ۔آپ جب بھی انکے پا س جائیں آپ کا بڑے پرتپاک طریقہ سے استقبال کرتے ہیں، جیسے انہیں صرف آپ کا ہی انتظار تھا۔ اپنے ہاتھ سے چائے یا کافی بنا کر پلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔حال احوال اس طرح پوچھتے ہیں جیسے ان سے زیادہ شاید ہی کوئی آپ کا ہمدرد ہو۔ ان کی یہی خوبیاں انہیں نہ صرف دوستوں میں مقبول بنائے ہوئے ہیں بلکہ بیرون ملک گورے اورپاکستانی دوست سبھی انہیں بہت مس کرتے ہیں ۔ڈا کٹر صا حب کہتے ہیں انسان سے چاہے وہ اپنے گھر کا فرد ہو، دوست ہو، رشتہ دار یا کوئی غیر ہو، اس سے گفتگو کرنا ،اس کی بات سننا یہ وقت کا ضیاع نہیں بلکہ ایک ایسی خدمت ہے جو مال وزر سے نہیں کی جاسکتی ۔کچھ عرصہ قبل ان سے انکے کمپلیکس نما دفتر میں جب ملاقات ہوئی تو ان کی ایک اور حرکت نے حیران کیا۔انہوںنے اپنے ہی دفتر سے ملحقہ واش روم بالکل بند کرکے مقفل کرکے رکھا ہے بلکہ وہی واش روم استعمال کرتے ہیں جسے ان کے کمپلیکس کے دیگر ملازمین یا آنےجانے والے تمام لوگ استعمال کرتے ہیں۔میں نے اس عمل کی منطق پوچھی تو کہنے لگے کہ میرے ملازمین اور صفائی والےعملے کو یہ معلوم ہے کہ میں بھی وہی واش روم استعمال کرتا ہوںجو عام ملازم یا باہر سے آنے والا کوئی بھی شخص استعمال کرتا ہے اور میرے عملے کو یہ بھی معلوم ہے کہ میں نے اپنا واش روم مقفل کررکھا ہے اور میں نےہر صورت یہ عام واش روم ہی استعمال کرنا ہے چاہے مجھے دن میں دس بار خالی ہینڈ واش ہی کیوں نہ کرنا ہوں۔ اس لیے میں جب بھی عام واش روم میں جاتا ہوں وہ نہ صرف مجھے صاف ملتاہے بلکہ واش روم جانے والے ہر شخص کو صاف ستھرا واش روم ملتا ہے۔ورنہ پہلے میرا واش روم تو لش پش ہوتا لیکن اس عام واش روم کی حالت بہت بگڑتی ہوتی ۔ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ جسے آپ نے میری منطق کہا ہے دراصل یہ منطق پورے ملک میں نافذ ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کوئی بڑا افسر کسی دفتر، کسی اسکول، یا کسی اسپتال کا دورہ کرتا ہے تواس روز سارا عملہ اس دفتر، اسکول یااس اسپتال کی خوب صفائی کرتا ہے،سڑکیں ،راہ داریاں، فرنیچر، شیشے سب کچھ ہی صاف ستھرا نظر آتا ہے۔ کوئی ٹوٹی پھوٹی چیز نظرنہیں آئے گی۔ ہر چیز ترتیب سے نظرآئے گی۔ سارا عملہ حاضر ہوگا۔اوراپنا اپنا کام کرتا نظرآئے گا۔ یہی وہ منطق ہے کہ جب ایک اعلیٰ یا سرکاری افسر کا بچہ عام سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرے گا توا سکول اسٹاف کو معلوم ہوگا کہ اس اسکول میں ایک عام خوانچہ فروش، کلرک یا کسی مزدور کا ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے افسران کے بچے بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں تواس اسکول کا معیار خود بخود بہتر ہوگا۔اسی طرح اگر سرکاری اسپتالوں سے سرکاری افسران بھی علاج کرانا شروع کردیں تو وہاں نہ صرف علاج کی بہترین سہولتیں میسر ہونگی بلکہ ایک نظم وضبط بھی نظرآئے گا۔ صفائی ستھرائی بھی بہترین ہوگی ہمیں عام اور خاص کے کلچر کو تبدیل کرنا ہوگا۔ وی آئی پی پروٹوکول کو ختم کرنا ہوگا، اور اس کا اطلاق تعلیمی اداروں،اسپتالوں ،ایئر پورٹس سڑکوں شاہرائوں سب پر لاگو کرنا ہوگا۔ ایک افسر کو بھی عام شخص کی طرح لائن میں لگ کراپنی باری کا انتظار کرنا ہوگا اگر ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے تواس کا اطلاق بھی وی آئی پی علاقوں، بڑے بڑے ایوانوں اور بڑے بڑے گھروں پر ہوگا ،اس کے نتیجہ میں، پہلی چیز تو یہ ہو گی کہ نظام کو بہتر کیاجائے گا اور دوسری صورت میں سب کومعلوم ہوگا کہ یہ ملک کا مسئلہ ہے جس میں ہر چھوٹا بڑا اپنے اپنے حصے کی تکلیف برداشت کررہا ہے ۔اگر ہم نے ترقی کرنی ہے، اگر ہم نے ملک وقوم میں اظہار یکجہتی پیدا کرنی ہے ۔ملک میں عدم مساوات کو ختم کرنا ہے ان اداروں کو بہتر سے بہتر کرنا ہے جہاں عوام کے ساتھ حیوانوں والا سلوک ہوتاہے۔تو پھر ہمیں واش روم والی منطق ہی اپنانا ہوگی۔قارئین یہ تو ڈاکٹر صاحب کی منطق تھی لیکن میں کچھ بات ذاتی حوالے سے بھی کرناچاہتا ہوں رمضان کے پہلے عشرے میں میرے سگے نانا کی وفات ہوگئی ہے ۔جن کی میں گود میں کھیلا اور پلا بڑھا ہوں۔جنہوںنے مجھے پڑھائی میں میری رہنمائی کی ہے مجھے ادب آداب سکھائے ہیں ۔میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنی دعائوں میں انہیں ضرور یاد رکھئے گا۔بلکہ رمضان کے اس بابرکت ماہ میں ان تمام مسلمانوںکےلیے دعا کیجئے گا جواس دارفانی سے رخصت ہوچکے ہیں اور اپنے اس پیارے ملک کو بھی اپنی دعائوں میں مت بھو لیے گا جو دشمنوں کی آنکھ میں شروع سے کھٹکتا رہا ہے اور وہ اسے نقصان پہنچانے کے درپے رہے ہیں کہ اللہ تعالی ہمارے اس پیارے ملک کو ہر مصیبت سے دور رکھے اوراس ملک کے ہر خاص وعام کو یہ توفیق دے کر وہ کسی کے آلہ کارنہ بنیں بلکہ اس کی مضبوطی کے لیے سب اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔
twitter:@am_nawazish
SMS رائے: #AMN (SPACE)پیغام لکھ کر 8001پر بھیجیں

تازہ ترین