• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی زندگی میں پانی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، پانی صرف جسم اور روح کا رشتہ قائم کرنےکے لئے ہی ضروری نہیں ہے بلکہ اب دنیا کے امن کا انحصار بھی پانی پر ہےاور کہا جاتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی کی کمیابی کی بنا پر ہوگی۔ اس تناظر میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی کا یہ بیان خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ قومی سلامتی کیلئے سب بڑا مسئلہ پانی کی قلت کا ہوگا آئندہ ملک میں پانی پر صوبوں کے درمیان جھگڑے ہوں گے جبکہ پاکستان اور بھارت بھی سندھ طاس معاہدے پر لڑ رہے ہوں گے۔ 2025میں پینے کے پانی کا بحران پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔ پانی کی کمیابی اور ترسیل کے ناقص نظام کی وجہ سے شہروں میں نقص امن کا خطرہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ اس کا ثبوت ایم ڈی واٹر بورڈ کا واٹر کمیشن کے روبرو وہ بیان ہے جس کے مطابق ایک قومی ادارے کے مسلح لوگ سادہ لباس میں پمپنگ اسٹیشن آئے ہائیڈرنٹ بند کرادیا مغلظات بکیں، اہلکاروں کو اغوا کرکے لے گئے اور پھر چھوڑ دیا۔ بلوچستان میں پانی کی قلت دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے یہاں ہر سال پانی کی سطح تیرہ سے چودہ فٹ نیچے ہوتی جارہی ہے اور پانی کے اکثر کنویں خشک ہوگئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان متوقع تبدیلیوں کا تدارک کرنے کے لئے مؤثر نظام وضع کیا گیا نہ ہی کوئی مؤثر حکمت عملی وضع کی گئی۔ اس خراب صورتحال کے باوجود حالیہ بجٹ میں آبی وسائل کیلئے ترقیاتی فنڈز مختص کرنے کی بات ہی نہیں کی گئی۔یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ حکومت بڑے متنازع ڈیم بنانے کے بجائے چھوٹے ڈیمز بنائے جائیں تاکہ گلیشیر پگھلنے اور بارش کی صورت میں پانی ذخیرہ کیا جاسکے ۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں درخت ایک قومی فریضہ کے طور پر لگائے جائیں تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچا جاسکے۔ امید کی جانی چاہئے کہ حکومت پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیمز بنانے کے ساتھ ساتھ پانی کی گورننس کا نظام بھی وضع کرے گی۔

تازہ ترین