• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ دو ہزار پندرہ کی بات ہے جب امریکہ کی ریاست یوٹا کے شہر سالٹ لیک سٹی میں ’’مذاہب عالم کی پارلیمان‘‘ منعقد ہوئی تھی جس میں امام کعبہ بھی بطور کلیدی مقرر شریک تھے تبت کے بدھوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ بھی متوقع تھے۔ اس کانفرنس میں پیغمبر اسلام کی سوانح لکھنے والی کیرن آرمسٹرانگ بھی شریک ہوئی تھی جو سب سے زیادہ سنی جانیوالی مقررہ تھی اور انکی کتاب سب سے زیادہ پڑھی جانے والی۔ اس میں بابا فرید شکر گنج کی درگاہ کے سجادہ نشیں بھی شریک تھے۔اس کانفرنس میں کوئی سینکڑوں مذاہب اور عقائد کے کوئی دس ہزار مندوب سالٹ لیک سٹی کے کنونشن ہال میں ایک ہی چھت کے نیچے شریک تھے۔ اس وقت مذاہب عالم کے پارلیمان کے صدر پاکستانی نژاد مسلمان ہیں۔ اس کانفرنس میں کئی لامذہب لوگوں کے ساتھ مجھے بھی شرکت کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذاہب عالم سے تعلق رکھے والی اکثریتی کمیونٹیوں میں لامذہب لوگ آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہونگے لیکن انہیں کانفرنس میں بھرپور شرکت کے مواقع حاصل تھے۔ اس کانفرنس میں وہ روسی سائنسدان بھی شریک تھا جس نے روس کی طرف سے ایٹمی جارحیت کی تیاری لیک کر کے دنیا کو تیسری عالمی جنگ اور مکمل تباہی سے بچالیا تھا۔ یہاں کئی نوبل انعام یافتہ سائنسدان بھی شریک تھے وہ سائنسدان بھی جو سائنس سے زیادہ مذہب کو مانتے تھے۔ مجھے کانفرنس کی انتظامیہ نے شرکت کرنے کیلئے خاص سفری اسکالر شپ دی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ایک لا عقیدہ شخص ہوں۔ مجھے اپنے اظہار رائے کا کھلا موقع میسر تھا۔ مجھے کیرن آرمسٹرانگ سمیت کئی کلیدی مقررین کو سننے اور ان میں سے کئی کے ساتھ غیررسمی وقت گزارنے اور بات چیت کا موقع بھی ملا تھا۔ لیکن جو بات میں یہاں کرنے لگا ہوں وہ یہ کہ مذکورہ مذاہب عالم کی پانچ روزہ پارلیمان میں ایک ہی چھت کے نیچے دس ہزار مندوبین کو کانفرنس کے تمام پانچ روز تک دوپہر کا کھانا یا لنچ کروانے والے سکھ حضرات و خواتین تھے۔ شاید سکھوں نے اس آخری لنچ کا بھی انتظام کیا تھا جس ہال میں امام کعبہ خطاب کر رہے تھے۔ کانفرنس میں کئی مفتیان، علما بھی شریک تھے لیکن کسی نے بھی سکھوں کی ایسی سیوا یا خدمت کو نظر انداز کیا نہ اس پر اعتراض کیا۔ بلکہ بغیر کسی اعتراض یا رکاوٹ کے سکھ بھائی اور بہنوں نے اپنا کام گمنامی سے جاری رکھا۔ مجھے یہ بات تب یاد آئی جب میں نے یہ خبر سنی کہ پشاور میں روزہ داروں کو افطار ی کروانے کا بندوبست کرنے والے ایک سکھ سماجی ورکر چرن جیت سنگھ کو قتل کردیا گیا ہے۔ خبروں میں یہ بھی بتایا گیا کہ مبینہ طورپر مقتول چرن جیت سنگھ کا قصور انکا روزہ داروں کو افطار کروانا بتایا جاتا ہے۔
میں نے سوچا کہ معاشرہ بلندیوں سے کیسی پستیوں میں جا گرا ہے۔ مسلمان صوفی بابا فرید کی پنجابی سندھی بانیاں مندروں گردواروں میں آج تک پڑھی اور گائی جاتی ہیں۔ سکھ مذہب کے آنے کی ایک وجہ ہندو مسلم خلیج کو بانٹنا بھی تھا۔
یہ جو لاہور میں عظیم صوفی میاں میر کا مزار ہے ۔ میاں میر امرتسر میں موجود تھے جب سکھوں کے گولڈن گردوارے یا گولڈن ٹیمپل کی بنیاد رکھی جارہی تھی۔ کئی روایتیں بتاتی ہیں کہ امرتسر کے اس عظیم گردوارے کی بنیاد میاں میر نے اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی جن کی ان کو سکھ گُرو کی طرف سے خاص دعوت دی گئی تھی۔
افغانستان اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پشاور سمیت کئی شہروں اور دیگر علاقوں میں سکھ کمیونٹی برسوں اور کہیں صدیوں سے آباد ہے۔ وہ پختون کلچر اور زبان کے رنگ ڈھنگ و روایات میں عرصے سے ڈھلے ہوئے ہیں ۔ انکے خلاف خونریزی اور تشدد کے واقعات طالبان ظالمان سے قبل تقسیم کے بعد شاید ہی ہوئے ہوں۔ لیکن ماضی قریب میں افغانستان اور پشاور میں سکھ برادری کے خلاف مبینہ طور پرتشدد غلط افواہوں اور مذموم مقاصد کو روا رکھا جاتا رہا ہے۔ کئی کو قتل بھی کیا گیا ہے۔ پھر بھی میں نے دیکھا ہے کہ کئی باتوں میں سکھ برادری ہر سطح اور ہر فورم پر پاکستانیوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ روزہ داروں کا روزہ کھلوانا افضل ہے یا روزہ داروں کو روزہ کھلوانے والوں کو قتل کرنا؟
تین قبریں ایک لڑکی:
سوشل میڈیا و پاکستان کےمیڈیا پر ایک انتہائی دردناک تصویر شائع ہوئی ہے جس میں ایک لڑکی تین قبروں پر بے یار و مدد گار کھڑی ہے۔ تین قبروں اور ایک لڑکی کی کہانی پرانی بھی ہے اور ہر دفعہ نئی بھی ہے۔ یاد ہے جبر کے موسموں میں سندھ میں تین قبروں پر جو لڑکی کھڑی ہوتی تھی ؟ میرا اشارہ اس پرانی تصویر والی تین قبروں پر کھڑی لڑکی بینظیر بھٹو کی طرف ہے۔ وہ تین قبریں اس کے دو بھائیوں اور والد کی تھیں۔
مگر اس بار تین نئی قبروں پر کھڑی ہوئی اس لڑکی کا نام ام رباب چانڈیو ہے جس کے جواں سال بھائی۔ والد اور دادا کو مبینہ طور ان چانڈیو سرداروں نے قتل کروایا ہے جنہوں نے ووٹ پرانی تصویر والی تین قبروں اور لڑکی کے نام پر لئے تھے۔ اور ان پرانی لڑکی اور تین قبروں میں سے چار قبریں بنیں اور انکی چار قبروں پر دو بار سندھ میں حکومت کرنے والوں نے نئی تین قبر والوں کے طاقتور قاتلوں کو تحفظ فراہم کیا۔ تین قبروں والے چانڈیو اور انکے خاندان کا تعلق بھی پی پی پی سے ہے۔
نئی لڑکی ام رباب جو خود بھی وکیل ہے ( اپنے چانڈیو قبیلے کی شاخ کی پہلی خاتون جو وکالت کی تعلیم حاصل کرنے تک پہنچی۔ اور شاید اس کے والد اور دادا کا لڑکیوں کو تعلیم دلوانا اور سرداروں کا منحرف بننا ان کے نوجوان بیٹے سمیت قتل کا موجب بنا۔ کس نے جانا ہے)۔
اب یہ لڑکی اپنے میہڑ شہر کے مقتولین جواں سال بھائی، والد اور دادا کے تہرے قتل میں انصاف کی سعی میں صحرا میں اس ہرنی جیسی ہے جو پانی کی تلاش میں دوڑتی دوڑتی سرابوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ امید کہ ام رباب اپنی اس تنہا جدوجہد میں انصاف حاصل کر کے رہے گی۔ چہ جائیکہ میڈیا، نام نہاد سول سوسائٹی اور اسکے لیڈر جلسے جلوس کر کےاب طاقتور سرداروں کے خلاف اس خاندان اور لڑکی کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ آخری دفعہ میں نے اس نوجوان خاتون وکیل کو میڈیا پر دیکھا۔ جب کراچی میں سپریم کورٹ رجسٹری میں کالا کوٹ پہنے یہ لڑکی ہاتھ میں پلے کارڈ لیے آگے آگے تھی اور بدحواس بے چاری اک پولیس والی اس کے پیچھے کہ ام رباب چیف جسٹس کی گاڑی روک کر انصاف مانگنا چاہتی تھی۔ کیا ام رباب کو چوتھی قبر کی بجائے انصاف ملے گا وہ بھی سندھ میں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین