• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تراویح میں تلاوت کردہ قرآن کریم کی پارہ بہ پارہ تفہیم

فہم القرآن:مفتی عبدالمجید ندیم
قد افلح …پارہ۱۸
سورہ المومنون
سورہ مومنون مکی سورت ہے ۔اس میں 118آیات اور چھ رکوع ہیں۔یہ سورت مکی زندگی کے دورِ متوسط میں نازل ہو ئی ۔اس وقت کفار کی ایذارسانی روز بروز بڑھ رہی تھی لیکن ابھی تک اس میں شدت نہیں آئی تھی ۔اس سورت کا اہم ترین مضمون اتبا عِ رسول کی دعوت ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اصولِ دین بھی بیان فرما ئے گئے ہیں۔حضرت عمر ؓ نے بذاتِ خود اس سورت کو حضور ﷺ پر نازل ہو تے ہو ئے دیکھا ۔وہی روایت کرتے ہیں کہ جب یہ سورت آپ پر نازل ہو چکی تو آپ نے ارشاد فرما یا ’’مجھ پر اس وقت ابھی ایسی دس آیات نازل ہوئی ہیں کہ اگر کو ئی بھی ان کے معیار پر پورا اترے تو یقینا وہ جنت میں جا ئے گا ۔(ترمذی)
سورت کے آغاز میں فلاح و کا میابی کا سات نکا تی پروگرا م دیا گیا ہے ۔(ا) ایسا ایما ن جو ہر طرح کے شک و شبہ سے ماوراء ہو (۲)نمازوں میں خشوع و خضوع(۳)فضول اور بیہودہ کاموں سے دُوری(۴)زکوٰۃ کی ادا ئیگی(۵)عفت و عصمت کی حفاظت(۶)امانتوںکی ادائیگی اور عہدوپیمان کی پاسداری(۷) نمازوں کو با قاعدگی سے وقت کی پابندی سے باجما عت ادا کرنا۔جو اہلِ ایما ن یہ تما م کا م کریں گے ان کے با رے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وہ جنت الفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔اگر غور کیا جا ئے تو یہ صفات ہر مو من اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے ۔اس کے لیے خلوص کے ساتھ کوشش درکار ہے ۔ان صفات کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کے مختلف مرحلوں کو بیا ن فرما نے کے بعد ان نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ہے جو انسان کو ہر زمانے میں عطا فرما ئی گئی ہیں۔اللہ تعالیٰ کی جس عظیم ذات نے یہ سب کچھ عطا فرمایا ہے وہ اس کائنا ت سے الگ تھلگ نہیں ہوگیا بلکہ وہ ہر چیز پر نظر رکھے ہو ئے ہے ۔اسے صاف معلو م ہے کہ اس کا ئنا ت میں کیا کیا ہو رہا ہے ۔پھر وہ جب تک چاہتا ہے انسانوں کو مہلتِ عمل دیتا ہے اور جب چاہتا ہے ان سے چھین لیتا ہے سات آسما ن ،بارش کا پانی ،زمین سے اگنے والی نباتات اور جانوروں کی مختلف اقسام یہ سب کچھ انسان کی خدمت ہی پر ما مور ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس جہانِ رنگ و بو میں ہر چیز انسان کے لیے اور اُسے اپنی عبادت و بندگی کے لیے پیدا فرمایا ہے ۔ آیت نمبر 23حضرت نوح ؑ کا تذکرہ فرمایا ہے ۔اس مقام پر خاص طور پر یہ بات ارشاد فرما ئی ہے کہ جب حضرت نوحؑ نے دین کی دعوت عوام الناس کے سامنے پیش کی تو قوم کے سرداروں نے صاف الفاظ میں کہا ہم تمہاری با ت اس لیے نہیں ما ن سکتے کہ تم ہمارے نظام کے مقابلے میں ایک نئے نظام کی بالا دستی چاہتے ہو اگر یہ نظام قائم ہو گیا تو تمہارا رتبہ بہت زیا دہ بڑھ جا ئے گا اور ہماری سیا دت و قیا دت خطرے میں پڑ جائے گی ۔گویا کہ معلوم ہوا کہ اس زمانے کے سردار ایسی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو ان کے جا ہلی نظام پر ضربِ کاری لگائے یہی وجہ ہے کہ قوم کے سردار نہ صرف اس دعوت کا راستہ روکتے ہیں بلکہ اس کے با رے میں کھل کر پروپیگنڈہ کرتے ہیں ۔وہ ایک طرف تو حضرت نوح ؑ کو نعوذ با للہ جھوٹا اور دوسری طرف ان کی دعوت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ نوح ہمارے جیسا انسان ہے وہ رسول کیسے ہو سکتا ہے ؟ اس کا یہ کہنا بھی جھوٹ پر مبنی ہے کہ ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جا ئیں گے ۔ہمارے خیال میں تویہ دنیا ہی کی زندگی سب کچھ ہے جس میں مزے اڑانے کے بعد ہم فنا ہو جا ئیں گے اور ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جا ئے گا ۔چنا نچہ ساڑھے نو سال کی محنتِ شاقہ کے با وجود یہ قوم ایما ن سے محروم رہی تو حضرت نوح ؑ نے اللہ تعالیٰ سے ان کے خلاف مدد ما نگی ۔پھر کیا تھا عذابِ الٰہی کا ایسا کوڑا ان پر برسا کہ وہ ایسے طوفان کا شکا ر ہو ئے کہ ان کی جڑ ہی کاٹ دی گئی۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تسلسل کے ساتھ کئی رسول مبعوث فرما ئے جو پورے دلائل و براہین کے ساتھ تشریف لا ئے لیکن لوگوں کی اکثریت ان پر ایما ن نہیں لا ئی جس کا نتیجہ عذابِ الٰہی کی شکل میں ظاہر ہوا اور وہ سب تبا ہ بربا د کر دیے گے۔اس ضمن میں خاص طور پر حضرت موسیٰؑ کی مثال دی گئی ہے کہ وہ اپنے بھا ئی حضرت ہارون ؑ کے ہمراہ فرعون کے پاس اللہ کا پیغام لے کر گئے لیکن اس نے تکبر و نخوت سے اس پیغام کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ہم اپنے جیسے دو انسانوں کی با ت کوکیسے تسلیم کر لیں جب کہ ان کی قوم بھی ہماری غلام ہے ۔گویا کہ کہہ رہا تھا کہ ہم ’غلاموں‘ کے مذہب کو اختیار کر لیں اس سے بڑی ذلت کو ئی دوسری نہ ہو گی ۔پھر کیا تھا ،اللہ تعالیٰ نے اس کے غرور کو خاک میں ملا دیا ۔اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اور نبی اس کا ئنا ت میں اعما لِ صالحہ کا نظا م قائم کرنے آئے تھے جس میں حلال کی بنیادی اہمیت تھی ۔انبیا ء کو بھی یہی حکم تھا کہ ’’اے رسولو! ہمارے دیے گے پاکیزہ رزق سے کھاؤ اور نیک اعما ل کرو‘‘۔شروع شروع میں ساری انسانیت ’ایک ہی امت ‘‘ تھی لیکن وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے رویوں میںتبدیلیاں واقع ہو تی گئیں اور آخرکار وہ مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔ان کے انہی رویوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں گمراہی میں ہی بھٹکنے دیا اور وہ ہدایت سے محروم کر دیے گئے۔ان کی گمراہی میں بنیادی کردار ان کے ما ل و منا ل کا تھا ۔وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ دنیا کا ما ل و دولت ہی کامیابی کا سب سے اعلیٰ معیار ہے لیکن جب یہی ما ل و اسبا ب ان کی تبا ہی کی بنیادی وجہ بنا تو ان کے پاس سدھرنے کے لیے کو ئی مہلت نہ تھی ۔ اس کے برعکس جو لو گ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں وہ ایما ن کی مضبوطی کے اُس رتبے پر فائز ہیں کہ ان کا کردار و عمل کبھی بھی شرک سے آلودہ نہیں ہوتا ۔وہ توحید پر کاربند رہ کر نیکی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں ۔ان کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کے دین کے غلبے کے لیے صرف ہوتا ہے ۔ان کے خلوص کا عالم یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں جب بھی کو ئی چیز خرچ کرتے ہیں تو ان کے دل کا نپ رہے ہوتے ہیں کہ معلوم نہیںہماری یہ خدمت قبول بھی ہو ئی ہے کہ نہیں۔یہی وہ سوچ ہے جو ان کے دل و دما غ میں اس تصور کو اور زیا دہ پختہ کر دیتی ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں جہاں انہیں اپنے کیے ہو ئے ہر عمل کا حساب دینا ہو گا ۔آیت نمبر62سے انکا ر کرنے والے سرکشوں کے رویے پر تبصرہ فرمایا گیا ہے کہ ان کے دل کلامِ الٰہی سے سخت غفلت میں مبتلا ہیں ۔وہ اپنے مال و دولت کے گھمنڈ میں سرکشی میں بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔یہاں تک کہ جب ہم ان کے مالداروں کو عذاب کے ذریعے پکڑتے ہیں تو اس وقت وہ سخت چلاتے ہیں لیکن اس وقت ان کا رونا اور چلانا کو ئی فائدہ نہیں دیتا اس لیے کہ وہ ہماری نصرت و تا ئید سے محروم کر دیے جاتے ہیں ۔یہ سبق ان کی منفی سرگرمیوں کی وجہ سے ہوتا ہے جب ان کی راتیں اللہ کے دین کی مخالفت میں بسر ہو تی ہیں اور یہ اس لیے بھی ہوتا ہے کہ وہ وقت کے رسول کو پہچاننے سے منکر ہو جا تے ہیں۔ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ حق ان کے نظریات کا پیرو بن کر رہے حالا نکہ صورتِ حال یہ ہے کہ اگر حق و سچ ان کے نظریات کا پیروکار بن جا ئے تو زمین و آسما ن کا سارا نظام ہی تلپٹ ہو جا ئے ۔انہیں معلو م ہونا چا ہیے کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا لہٰذا اے محمد ﷺ آپ انہیں صراطِ مستقیم کی دعوت دیتے رہیے ۔اب اگر یہ اسے قبول کر لیں تو انہی کی بہتری ہے وگرنہ انہیں معلو م ہی ہے کہ جو جو بھی اس حق کا انکار کرے گا آخر کا رذلت ہی اس کا مقدر بنے گی ۔انکا ر کرنے والوں سے اگر یہ پو چھا جا ئے کہ زمین و آسما ن کا مالک کو ن ہے اور کس کا اقتدار چہار سو قائم ہے تو ان کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں ہو گا کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کا ہے ۔جب ان کا اعتراف یہ ہے تو انہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرا کر اس کی توحید کے پیغام کو مسترد کر رہے ہیں۔انسانی عقل بھی اسی با ت کو تسلیم کرتی ہے کہ اگر زمین میں ایک سے زیا دہ خداہوتے تو یہ سارا نظام ہی تلپٹ ہو جاتا اس لیے کہ ہر خدا کی کوشش ہو تی کہ وہ دوسرے پر غلبہ حاصل کرے ۔جا ن لو کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب انسانوں کے عقیدے اور عمل کے مطا بق ان کے درمیان فیصلے کیے جا ئیں گے ۔اس وقت انسان تمنا کرے گا کہ اسے دنیا میں واپس بھیج دیا جا ئے تا کہ وہ نیک اعما ل کرے لیکن اسے کہا جا ئے گا کہ اب یہ مہلت دوبارہ نہیں دی جا سکتی لہٰذا ب تمہیں جہنم میں اپنی ہمیشہ کی سزا بھگتنا ہو گی ۔جب آگ ان کے چہرے جلا رہی ہو گی تو ان سے پو چھا جا ئے گا ’’کیا ہماری آیات تمہیں پڑھ کر نہ سنا ئی جا تی تھیں ؟‘‘ ۔ان کا جواب ہو گا کہ ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی تھی جس کی وجہ سے ہم گمرا ہی کا شکا ر ہو گئے تھے۔اے ہمارے رب اب اگر تو ہمیں ایک با ر یہاں سے نکا ل دے تو ہم بالکل ٹھیک ہو جا ئیں گے ۔جواب دیا جا ئے گا ’ بہت ہو چکی ۔اب تم مجھ سے با ت بھی نہ کرو اس لیے کہ تم نے اہلِ ایما ن کا مذاق اڑایا اور حق کی با ت کو مسترد کر دیا ۔اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی آگ کا مزہ چکھتے رہو گے ۔رہے وہ صاحبِ ایمان جن کا تم مذاق اڑاتے تھے آج میں نے انہیں اپنی رحمتوں سے مالاما ل فرما دیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے مقصد پیدا نہیں کیا ۔اس کی زندگی کا ایک خاص مقصد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایما ن لا کر اس کی بندگی کرے اور کا ئنا ت میں اس کے دین کے غلبے کی جدوجہد کرے اسی میں اس کی کامیا بی و کامرا نی کا راز پو شیدہ ہے۔
سورہ النور
سورہ نور مدنی سورت ہے ۔اس میں 64آیات اور نو رکوع ہیں۔اس سورت کے نا م کی وجہ آیتِ نور ہے جس میں اللہ تعالیٰ کو زمین و آسما ن کا نور قرار دیا گیا ہے ۔اس سورت کا اہم موضوع عفت و عصمت کے وہ قوانین ہیں جن پر ایک صالح معاشرہ تعمیر ہوتا ہے ۔سورت کا آغاز زنا کی سزا کے بیان سے ہوتا ہے ۔زنا کی یہ سزا غیر شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے ہے ۔شادی شدہ زانی یا زانیہ کی سزا حدیثِ مبارکہ میں بیان ہو ئی ہے ۔یہاں سے یہ با ت بھی ہماری سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن اور حدیث دونوں کی ہدایت کے ایسے سر چشمے ہیں کہ ان میں سے ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔آیت نمبر4اور5میں تہمت اور ایلا ء کی سزائیں بیان کی گئی ہیں ۔اسلا می معاشرے میں کسی بھی شخص کو اس با ت کی اجازت نہیں ہے کہ وہ بغیر دلیل کے کسی کی عزت و آبرو کے ساتھ کھیلتا رہے اگر وہ ایسا کرے گا اور اپنی با ت کو دلیل سے ثابت نہ کر سکے گا تو اسے اسی کوڑے مارے جا ئیں گے اور وہ پوری زندگی کے لیے گواہی دینے کے لیے نا اہل قرار پا ئے گا ۔اسی طرح اگر میاں بیوی میں سے کو ئی ایک دوسرے پر زنا کی تہمت لگائے تو ان سے قسمیں لنے کے بعد انہیں الگ کر دیا جا ئے گا۔شریعت کی اصطلاح میں اسی کا نا م ’ایلا ء‘ ہے ۔آیت نمبر11سے آیت نمبر26تک واقعہ افک کا تذکرہ ہے۔ غزوہ بنی المصطلق کے بعد حضرت عائشہ ؓ کے کردار پر جو حملہ ہوا اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب پورے دو رکوعوں میں دیا ہے ان آیات میں ایک طرف تو منا فقین اور کفار کو ان کے منفی پروپیگنڈے پر سخت سزا کی خبر دی گئی ہے تو دوسری طرف ان کمزور اہلِ ایما ن کو بھی تنبیہ کی گئی ہے جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو ئے تھے ۔تاریخ ِ انسانی میں حضرت عائشہ ؓ وہ پہلی خاتون ہیں جن کے کردار کی عظمت کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود کتاب ِالٰہی کی آیا ت میں دی ہے ۔اس سے حضرت عائشہ ؓ کے مقام و مرتبے اور عزت و عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔اسی واقعے کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکامات بھی دیے ہیں جن پر عمل کے ذریعے اسلا می معاشرہ بہت سی خرابیوںسے محفوظ ہو سکتا ہے ۔اس ضمن میں پہلا حکم یہ دیا گیا کہ کسی کے گھر بھی جاناہو تو اجازت لے کر سلام کہتے ہو ئے جا ؤ۔دوسرا حکم پردے کاہے کہ مسلمان خواتین پردے کا اہتما م کریں ۔اس کے ساتھ ہی محرموں کا ذکر بھی فرما دیا گیا ہے ۔یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ وہ غلام اور لونڈیاں جو نکا ح کی سکت رکھتے ہوں ان کے نکا ح میں مدد دی جا ئے تا کہ معاشرے کی پاکیزگی یقینی ہو جا ئے ۔آیت نمبر35سے اللہ تعالیٰ کے نور کی مثال بہت ہی خو بصورتی سے دی گئی ہے جس سے یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ بندہ مو من کا دل ایک ایسا مقام ہے جو نورِ توحید سے روشن ہو تا ہے اور نیک اعما ل اس کی روشنی کو اور زیا دہ بڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی زندگی اور ماحول روشن ہو جاتا ہے ۔یہی وہ اہلِ ایما ن ہیںجو صبح شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور کوئی خرید و فروخت انہیں اللہ کے ذکر اور نماز و زکوٰۃ کے قیام سے نہیں روک سکتی ۔اس کے برعکس جو لو گ اللہ کا انکار کرنے والے ہیں انکے اعما ل سراب کی مانند ہیں ۔ وہ بظاہر تو بہت زیادہ نظر آتے ہیںلیکن ان کی کو ئی اصلیت نہیں ہے یا ان کی مثال سمندر کے ان اندھیروں کی ہے جو تہہ در تہہ ہو تے ہیں ۔با لکل اسی طرح ان کی زندگی کے اعما ل بھی اندھیروں کی مانند ہیں جو ان کی سیا ہی میں اضافہ ہ کرتے جا رہے ہیں۔غور کرنے والے قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی طا قت کی نشانیاں ملا حظہ کر کے حق شنا سی کی منزل کو پا لیتے ہیں۔بادلوں سے بر سنے والا پانی ،کوندتی ہو ئی بجلی کی چمک اور زمین پر چلنے والے جاندار اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بہترین شاہکار ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ کی مہربا نی کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایات کے لیے واضح آیات نا زل فرما ئی ہیں تا کہ انسان ہدایت کے راستے پر چلنے لگ جا ئے لیکن انسانوں کا رویہ یہ ہے کہ جب بھی انہیںاللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو وہ اپنا منہ ہدایتِ الٰہی سے پھیر لیتے ہیں۔یہ اس لیے ہے کہ ان کے دلوں میں کفر اور شرک کی بیماری ہے یا وہ شک میں مبتلا ہیں۔یا یہ سوچ رہے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کی حق تلفی کر ے گا ۔حقیقت یہ ہے کہ ان کا حق کے ساتھ یہ رویہ بہت ہی خطرنا ک ہے جس کی سزا انہیں ضرور مل کر رہے گی ۔اس کے برعکس اہلِ ایما ن کا اندازہے کہ انہیں جب بھی اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جا تا ہے تاکہ وہ انکے معاملا ت کا فیصلہ کریں تو وہ صاف کہتے ہیں کہ ’’ہم نے سنا اور ہم نے ما ن لیا ‘‘۔ایسے ہی اہلِ ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین کا اقتدار عطا فرما ئیں گے جہاں وہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کی سر بلندی کیلئے جدوجہد اور اللہ کے دین کا عملی نفاذ کریں گے۔آیت نمبر 58سے مزید ہدایت دی گئی ہیں کہ تین اوقات میں اجازت لے کر دوسروں کے کمرے میں جایا جا ئے اور یہ اوقات فجر سے پہلے،دوپہر کے وقت اور عشاء کے بعد کے ہیں ۔اس لیے کہ یہ اوقات تخلیے کے ہو تے ہیں لہٰذا اجازت لے کر جا نا ضروری ہے ۔اس کے ساتھ ہی ان عورتوں کے لیے پردے کے قوانین نرم کر دیے گئے ہیں جو پرانی عمر کو پہنچ جا ئیں قرابت داروں کے گھروں میں بلاروک ٹوک جا نے کی اجازت دی گئی ہے لیکن یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہاں جاؤ تو سلا م کرو اور اجازت لے کر جاؤ۔سورت کے آکر میں احترامِ رسول ﷺ کی تلقین کی گئی ہے کہ انہیں ا س طرح نہ بلا ؤ جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو اس لیے کہ یہ ادب کی وہ جگہ ہے جہاں ذرا سی کو تاہی سارے اعما ل کے ضیاع کا باعث بن سکتی ہے ۔
سورۃ الفرقان
سورہ فرقان بھی مکی سورت ہے جو مکی زندگی کے دورِ متوسط میں نازل ہو ئی ۔اس سورت میں77آیات اور چار رکوع ہیں ۔اس سورت میں ایک طرف تو کفار کے نبوتِ محمدیہ پر فضول اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے تو دوسری طرف تاریخی شہادتوں سے انکار کرنے والوں کا انجا م بیان کیا گیا ہے۔رحمان کے بندوں کی وہ صفات بیان کی گئی ہیں جو اللہ کی رضا اور جنت کو پانے کے لیے ضروری ہیں۔سورہ فرقان کا آغاز اس اعلا ن کے ساتھ ہوتا ہے کہ یہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے نبی اکرم ﷺ کو ساری کا ئنات کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر مبعوث کیا ہے ۔کفار کے سارے اعتراض لا یعنی ہیں کہ محمد ﷺ کو اپنی نبوت کے وہ ثبوت پیش کرنے چا ہییں جن کا مطا لبہ ہم کر رہے ہیں ۔کبھی وہ کہتے ہیں کہ ان پر آسمان سے کو ئی فرشتہ نازل ہو جو ان کے نبی ہو نے کی خبر دے یا انہیں کو ئی بڑاسا خزانہ دیا جا ئے اور یا ان کا کو ئی بڑا سا با غ ہو ۔یہ سارے مطالبا ت ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو پورا فرما سکتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ کفار پھر بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے ۔اصل با ت یہ ہے کہ ان لوگوں نے قیامت کو جھٹلا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ طرح طرح کے فضول مطا لبے کررہے ہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چا ہیے کہ وہ دن جلد ہی آنے والا ہے جب ساری حقیقت ان کے سامنے کھل جا ئے گی ۔اس دن ان کے معبودانِ با طلہ ان کی مدد سے عاجز ہوں گے اور ان کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہو گا ۔آخر میں نبی اکرم ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ سے پہلے بھی جتنے رسول مبعوث فرما ئے گئے ہیں وہ آپ ہی کی طرح بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اوران کی بشری حاجا ت بھی آپ ہی کی طرح تھیں لیکن اس سب کے باوجود جب وہ اللہ کے رسول تھے تو پھر تاریخ کی یہ حقیقت با لکل واضح ہے کہ آپ بھی اللہ ہی کے رسول ہیں۔
تازہ ترین