• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سنہرا کا تحفہ

فرح سلمان… کراچی

زارا اور سنہرا دونوں ایک ہی محلے میں رہتی اور پکی سہیلیاں تھیں۔ زارا اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اس کے ابو شہر میں واقع ایک اسٹور کے مالک تھے۔ گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی، جب کہ سنہرا متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، اس کے پانچ چھوٹے بہن بھائی تھے۔ اس کے بابا نجی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ ان کی تنخواہ میں بمشکل گھر کا گزارا ہوتا تھا۔ اس لیے سنہرا کی امی بھی گھر خرچ میں اس کے بابا کی مدد کرتی تھیں۔ انہیں پینٹنگ کا شوق تھا، اس لیے وہ آرڈر پر پینٹنگ بناکر فروخت کرتی تھیں، جس سے کچھ بچت ہوجایا کرتی تھی۔ مگر جب کبھی مہینے بھر کوئی آرڈر نہیں آتا، تو ان کا ہاتھ تنگ ہوجاتا تھا۔

زارا کی روزہ کشائی ہونے والی تھی، جس کی تیاریاں خوب جوش و خروش کے ساتھ ہو رہی تھیں، اس نے اپنی تمام سہیلیوں کو مدعو کیا تھا۔ سنہرا بھی زارا کی روزہ کشائی پر بہت پُر جوش تھی، وہ اپنی سہیلی کو کوئی بہترین تحفہ دینا چاہتی تھی، مگر یہ بھی جانتی تھی کہ اس کے گھر کے مالی حالات اسے کسی مہنگے تحفے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس کے باوجود اس نے بابا سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ماما نے یہ اسے بہت سمجھایا کہا کہ، ہماری اتنی سکت نہیں ہے کہ مہنگا تحفہ خرید سکیں، اس لیے وہ زارا کے لیے کوئی اچھی سی پینٹنگ تیار کر دیں گی، مگر سنہرا بضد تھی کہ اسے کوئی مہنگا تحفہ ہی چاہیے۔ بابا اپنی بیٹی کی معصوم سی خواہش کو رد نہ کرسکے اور انہوں نے سنہرا سے وعدہ کرلیا اور کہا کہ، ’’ابھی تو ایک ہفتہ ہے…، کچھ نہ کچھ ہو جائے گا تب تک‘‘۔

سنہرا نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر تحفہ نہ آیا تو وہ روزہ کشائی میں نہیں جائے گی، جب کہ زارا امید لگائے بیٹھی تھی کہ سنہرا کے ساتھ روزہ کشائی سے افطار کا مزہ دوبالا ہوجائے گا۔ بالآخر روزہ کشائی کا دن آگیا، مگر اب تک کسی تحفے کا انتظام نہیں ہو سکا تھا۔ سنہرا کے بابا دفتر سے ابھی تک نہیں آئے تھے، وہ بے چینی سے ان کا انتظار کر رہی تھی، کبھی گھڑی کی سوئیوں کو دیکھتی تو کبھی دروازے کو۔ روزہ افطار میں جانے کے لیے سنہرا کی تیاری مکمل تھی، بس انتظار تھا تو صرف تحفے کا۔ شام کے پانچ بج چکے تھے۔ سنہرا نے بالکونی سے جھانک کر دیکھا، زارا کے گھر مہمانوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اس کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو وہ ماما کے پاس آئی اور کہنے لگی، ’’ماما، بابا ابھی تک نہیں آئے‘‘۔

سنہرا کی آمی بھی پریشان تھیں، انہوں نے فکرمند ہوتے ہوئے کہا، ’’تمہارے بابا روزانہ چار بجے تک آجاتے ہیں، آج تو کافی دیر ہوگئی ہے۔‘‘ اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجی، دروازے پر بابا تھے اور ان کے ہاتھ میں تحفے کا بڑا سا ڈبہ تھا۔ یہ دیکھ کر سنہرا کا چہرا خوشی سے کھل اُٹھا اور ’’میرے اچھے بابا‘‘، کہہ کر اُن سے لپیٹ گئی۔

اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ،کیوں کہ بابا شاندار گڑیا تحفے میں دینے کے لیے لائے تھے۔ وہ گڑیا کو پیک کرنے لگی، اسی اثناء میں اس کی ماما نے سنہرا کے ہاتھ سے تحفہ لیتے ہوئے کہا کہ، ’’اسے میں پیک کر دیتی ہوں تم جا کے تیار ہو جاؤ، تمہیں دیر ہو رہی ہے‘‘۔

سنہرا تیار ہونے کے لیے کمرے کی جانب بھاگی، ابھی افطار میں کچھ وقت باقی تھا وہ جلدی جلدی تیار ہو رہی تھی کہ، اسے خیال آیا کہ اس نے بابا کا شکریہ ادا تو کیا ہی نہیں۔ وہ تیار ہو کر بابا کے کمرے کی جانب بڑھی لیکن امی کی آواز سن کر دروازے پر ہی رک گئی۔

ماما، بابا سے کہہ رہی تھیں کہ، ’’آپ نے تحفہ خریدنے کے لیے اپنے ابو کی آخری نشانی، وہ قیمتی گھڑی بیچ دی‘‘۔ یہ سنتے ہی سنہرا کی ساری خوشی ماند پڑ گئی، اسے افسوس ہو رہا تھا کہ اسے بابا سے یوں بے جافرمائش نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اسے دکھ ہو رہا تھا کہ اس کی وجہ سے بابا کو دادا جان کی گھڑی فروخت کرنی پڑی، وہ سوچ رہی تھی کہ گھڑی فروخت کرتے ہوئے بابا کو کتنا دکھ ہوا ہوگا۔ شرمندگی کے باعث اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے۔ اس کے رونے کی آواز سن کر ماما، بابا کمرے سے آئے اور اس کے رونے کی وجہ پوچھی۔ اس کے روتے ہوئے اپنی ناسمجھی کی معافی مانگی، بابا نے بے اختیار سنہرا کو گلے سے لگایا اور کہنے لگے، ’’کوئی بات نہیں بیٹا! تم کو اس بات کا احساس ہوگیا، ہمارے لیے یہی کافی ہے، ورنہ آج تم تحفہ نہ پاکر اداس ہوتیں تو آپ کے مرحوم دادا جان کو بھی دکھ ہوتا‘‘۔ ’’اب چلو جلدی سے جائو، تمہاری سہیلی تمہارا انتظار کررہی ہوگی‘‘ امی نے سنہرا کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور اُس کے ہاتھ میں تحفہ تھمایا دیا، وہ خوشی خوشی ہاتھ ہلاتی زارا کی روزہ کشائی میں چلی گئی، راستے میں وہ سوچ رہی تھی کہ، ماما، بابا کے بس میں جو ہوتا ہے وہ ہمارے لیے کرتے ہیں، ہمیں ان سے بےجا ضد نہیں کرنی چاہیے۔

تازہ ترین