اللہ تبارک تعالیٰ کی بارگاہ میں بنیادی حقوق کے اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ نیک اور افضل وہ ہے، جو سب سے زیادہ متقّی ہے۔ خادم، آقا، ملازم، مالک، یہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ معاش کے اعتبار سے بعض کو بعض پر ضرور فوقیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمہ: ’’ہم نے ہی ان میں دنیاوی زندگی کی روزی تقسیم کی ہے اور ایک کو، دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے، تاکہ ایک، دوسرے سے کام لیتا رہے (اور عالَم کا انتظام قائم رہے)۔‘‘ (سورۃ الزخرف) مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ مال و دولت، جاہ و منصب اور عقل و فہم میں ہم نے یہ فرق و تفاوت اس لیے رکھا، تاکہ زیادہ مال والا، کم مال والے سے، اونچے منصب والا، چھوٹے منصب داروں سے اور عقل و فہم میں حَظ وافر رکھنے والا اپنے سے کم تر عقل و شعور رکھنے والے سے کام لے سکے اور کائنات کا نظام چل سکے، ورنہ اگر سب مال، منصب، علم و فہم، عقل و شعور اور دیگر اسبابِ دنیا برابر ہوتے، تو کوئی کسی کا کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا اور اسی طرح کم تر اور حقیر سمجھے جانے والے کام بھی کوئی نہ کرتا۔ تمام حاجات و ضروریاتِ انسانی، کوئی ایک شخص چاہے، وہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہو، دیگر انسانوں کی مدد حاصل کیے بغیر خود فراہم کر ہی نہیں سکتا۔ اسلام سے قبل، عرب کےدورِ جاہلیت میں غلاموں اور باندیوں کا رواج عام تھا، جو شخص ایک مرتبہ غلام بن جاتا، پھر وہ نسل دَر نسل غلام ہی رہتا۔ غلاموں کے ساتھ جو ظلم و زیادتی اور جبروتشدّد کیا جاتا، اسے دیکھ اور سن کر جسم کا رواں رواں کانپ اٹھتا۔ اللہ کے رسولﷺ جب رحمت اللعالمینﷺ بن کر دنیا میں تشریف لائے تو آپﷺ نے غلاموں کو آزادی دلاکر اس بھیانک تصور کا خاتمہ کیا۔ صحابہ کرامؓ نے نہ صرف اپنے غلاموں کو بلکہ مشرکین کے غلاموں کو بھی اللہ کی راہ میں خرید کر آزاد کروایا۔ اس کے ساتھ ہی آپؐ نے معاشرے کے ہر فرد کے حقوق متعین فرمادیئے۔ جو لوگ دوسروں کی خدمت کرکے روزی کماتے ہیں، ان کے حقوق و فرائض کی نشان دہی فرمادی اور سب کو پابند فرمادیا کہ ان حقوق کی سختی سے پاس داری کریں۔
ہمارے معاشرے میں اکثر گھریلو ملازمین، خصوصاً خواتین اور بچّوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے، وہ قابلِ افسوس بھی ہے اور شرم ناک بھی۔ غربت کے ہاتھوں پِسے ان لوگوں پر ڈھائے گئے ظلم و جبر اور اذیت کی داستانیں آئے روز میڈیا کی زینت بنتی ہیں، لیکن یہ تو وہ چند کہانیاں ہیں، جو کسی طرح سے منظرِعام پر آجاتی ہیں، جب کہ چند اچھے گھرانوں کو چھوڑ کر عمومی طور پر ان گھریلو ملازم خواتین (ماسیوں) اور ملازم بچّوں کے ساتھ اہلِ خانہ، خصوصاً گھر کی مالکہ کا رویّہ نہایت حقارت انگیز، نازیبا اور توہین آمیز ہوتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر سخت برا بھلا کہنا، جھڑکنا اور تشدد کرنا ان کا وتیرہ اور روز کا معمول ہے، جو اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔
گھریلو ملازم کے بنیادی حقوق:معاشرے میں پھیلی برائیوں اور بداعتمادی کے سبب بغیر ریفرنس کسی اجنبی کو گھریلو ملازم رکھنے سے پرہیز کیا جائے۔ ملازم یا خادم رکھتے وقت متعلقہ تھانے میں اس کی رجسٹریشن ضرور کروائیں۔ اسلام میں نامحرم سے پردے کے حکم میں بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں اور گھریلو ملازمین کو اس سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ اس حکم پر عمل درآمد کا اہتمام خود بھی کریں اور گھر کی خواتین سے بھی کروائیں۔ ملازم، خادم رکھنے سے پہلے اسے کام کی نوعیت، اوقات ِکار، تن خواہ اور دیگر شرائط کے بارے میں تفصیل سے مطلع کردیا جائے۔ ملازم، خادم کی صلاحیت، طاقت اور استطاعت سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔اس کے ساتھ حسنِ سلوک، احسان اور انصاف کیا جائے۔ طے شدہ کام اور اوقات کار سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔ اضافی کام اور اضافی اوقاتِ کار کا الگ سے معاوضہ اس کی مرضی اور خواہش کے مطابق دیا جائے۔ ملازم، خادم کی خطائوں، لغزشوں کو درگزر اور معاف کیا جائے۔اس پر کسی بھی قسم کی ناجائز سختی، توہین، تشدّد یا مارپیٹ سے پرہیز کیا جائے۔ نادانستگی میں ہونے والے نقصان پر اسے معاف کردیا جائے۔ ملازم، خادم کی اجرت، پہننے کے لیے لباس، غذا کی فراہمی اور دیگر ضروریات وقت پر باقاعدگی سے پوری کی جائیں۔ ان کے آرام کا بھی خیال رکھا جائے اور بیماری یا کسی پریشانی میں انہیں مدد، تعاون اورسہولت فراہم کی جائے۔ نیز،جس حد تک ممکن ہو، ان کی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے۔
حسنِ سلوک:نیکی اور خیر کے کاموں میں حسنِ سلوک کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے ذریعے انسان میں تواضع پیدا ہوتی ہے۔ حضورﷺ اپنے خدّام کے ساتھ سب سے مثالی سلوک کرتے تھے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ مَیں آنحضرتؐ کی سفر اور حضر میں خدمت کرتا رہا، لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام ایسے کیوں کیا اور ایسے کیوں نہ کیا۔ (صحیح بخاری)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بدخلقی سے پیش آنا بدبختی ہے۔‘‘ (سنن ابودائود)خدّام اور ملازمین کے ساتھ ہمیشہ ہم دردانہ رویہ رکھنا چاہیے۔ اگر کبھی ملازم کی کسی بات پر غصّہ بھی آجائے، تو ضبط سے کام لینا چاہیےاور بداخلاقی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کر کے لائے، تو مالک کو چاہیے کہ خادم کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھانے پر بٹھالے۔ اگر کھانا تھوڑا ہو، تو اس میں سے ایک دو لقمے اسے کھلادے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ (غلام) تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے انہیں تمہارا دستِ نگر بنایا ہے، انہیں وہی کھلائو، جو تم خود کھاتے ہو۔ وہی پہنائو، جو تم خود پہنتے ہو اور ان کو ایسے کام پر مجبور نہ کرو، جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو، پھر اس کام میں خود بھی اس کی مدد اور اعانت کرو۔‘‘ (متفق علیہ)۔
اجرت کی بروقت ادائیگی:ملازم کی طے شدہ اجرت کی ادائیگی بروقت کرنی چاہیے، اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشی پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی طرح عموماً لوگ مختلف بہانوں سے ملازم کی تن خواہ میں سے کٹوتی کرلیتے ہیں، جو ناجائز ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کو امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو، تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ اللہ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے۔ بے شک، اللہ سنتا اور دیکھتا ہے۔ (سورۃ النساء)۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ان کا ایک ماتحت ملازم ان کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انہوں نے فرمایا ’’کیا کنیزوں اور غلاموں کو ان کا کھانا دے دیا ہے۔‘‘ کہا، نہیں، تو فرمایا ’’جائو ان کا کھانا دو، کیوں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ انسان کی بربادی کے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ جن کی روزی اس کے ذمّے ہو، اسے روکے۔‘‘ ایک روایت ہے کہ ’’آدمی کے تباہ ہونے کے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ جو روزی دی جاتی ہے، اسے ضایع کردے۔‘‘ (مسلم)۔
عفو و درگزر سے کام لینا: دنیا میں ہر انسان بہ تقاضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے۔ گھریلو ملازم، خادم اور نوکر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ملازم، خادم چوں کہ دن رات کا بیش تر حصّہ ہماری خدمت گزاری میںوقف ہیں اور حتی الامکان ہمیں آرام پہنچانے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں، تو بعض اوقات ہمارے مزاج اور منشاء کے مطابق کام نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ملازم کی اپنی کوئی پریشانی یا اس کی طبیعت کی خرابی سے بھی تفویض کیا گیا کام نہیں ہوپاتا یا متاثر ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں ملازم سے سرزد ہونے والی غلطی پر تحمّل سے کام لیتے ہوئے درگزر کرنا چاہیے۔ اگر اسے کوئی پریشانی لاحق ہو، تو دور کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو، تو اس کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔ بعض اوقات ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصّہ کرنے کے بجائے، صبر سے کام لینا چاہیے۔ اس کی غلطی اور کوتاہی کو معاف کرکے نرم اور ٹھنڈے لہجے اور اچھے انداز میں اس کی اصلاح کی جائے کہ ملازمین کی اصلاح و تربیت مالک کے بھی سکون و اطمینان کا باعث بنتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ ’’یارسول اللہؐ !میں کتنی بار اپنے خادم کو معاف کروں؟‘‘ حضورؐ نے فرمایا۔ ’’ہر روز ستّر مرتبہ۔‘‘ (ترمذی شریف)۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں وہ شخص نہ بتائوں، جو آگ پر حرام اور آگ اس پر حرام ہے۔ وہ نرم طبیعت، نرم زبان، گھل مل کر رہنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔‘‘ (ترمذی شریف)۔ حضرت سہیل بن معاذ نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’جو اپنے غصّے کو پی جائے، اگرچہ وہ اس کے مطابق کرنے پر قدرت رکھتا ہو، تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے مخلوق کے سرداروں میں بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے، پسند کرلے۔‘‘ (ترمذی شریف)۔خدّام اور ملازمین کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو درگزر کرکے معاف کرنے والے کا دل خوفِ خدا کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔حضرت امام غزالیؒ نے فرمایا کہ ’’خادموں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھو، یہ خیال کرو کہ یہ بھی تمہاری طرح بندے ہیں۔ اگر ان سے کوئی قصور یا کوتاہی ہوجائے، تو خود جو قصور اور گناہ کرتے ہو، ان کا خیال کرو اور انہیں یاد کرو اور جب ان پر غصّہ آئے تو اللہ احکم الحاکمین کا، جو اس پر قدرت رکھتا ہے، خیال کرو۔‘‘ (کیمیائے سعادت)۔
سختی کرنے کی ممانعت:ہمارے معاشرے میں غربت کے ہاتھوں مجبور چھوٹے گھریلو ملازمین پر سختی کرنے، زدوکوب کرنے، یہاں تک کہ انہیں جلا دینے تک کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ لوگ اپنے بچّوں کی غلطیوں کو تو نظرانداز کردیتے ہیں، لیکن کم سِن ملازم کی ذرا سی غلطی پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ان واقعات میں عموماً بڑے گھرانوں کی خواتین شامل ہوتی ہیں، جن کے دلوں سے خوفِ خدا ختم ہو چکا ہے۔ ہم میں سے ہر صاحبِ حیثیت کو اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ان معصوم ملازمین پر ڈھایا جانے والا ہر ظلم، تشدّد، زیادتی اور سختی دائیں اور بائیں کاندھوں پر بیٹھے کرامن کاتبین نوٹ کررہے ہیں۔ روزِ قیامت ان سب واقعات پر مشتمل نامۂ اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوگا اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ آخرت کی جزا و سزا اعمال سے مربوط ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے ’’جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔‘‘ (متفق علیہ)۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’کیا میں تم میں سے برے لوگ نہ بتائوں؟ وہ جو اکیلے کھانا کھائے، اپنے غلام کو کوڑے مارے اور اپنی بخشش کو روکے۔‘‘ حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے پِیٹے اور وہ اللہ کو یاد کرے، تو اس سے اپنے ہاتھوں کو اٹھالو۔‘‘ (ترمذی، بیہقی)۔حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’تین صفات ایسی ہیں کہ جس میں ہوں گی، اللہ تعالیٰ اس کی موت آسان کردے گا اور اسے جنّت میں داخل کرے گا۔ ایک کم زور کے ساتھ نرمی کرنا، دوسری والدین کے ساتھ شفقت کا سلوک اور تیسری اپنے غلاموں اور کنیزوں سے حسنِ سلوک۔ (مشکوٰۃ)۔
عدل و انصاف:اللہ تعالیٰ نے مزدور اور محنت کش کو اپنا دوست قرار دیا ہے۔ ملازم اور خادم بھی محنت کش ہی ہوتے ہیں، لہٰذا یہ بھی اللہ کے دوست ہیں۔ ملازم اور خادم کے ساتھ کام اور اجرت کے معاملے میں عدل و انصاف سے کام لیا جائے، ان سے وہی کام لیا جائے، جس کے لیے انہیں ملازم رکھا ہے، ان کی طاقت و استطاعت سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔ ہر شخص پر اپنے مال کی حفاظت لازم ہے۔ اکثر اوقات کسی چیز کے گم ہوجانے پر بلا ثبوت گھریلو ملازمین یا کام کرنے والی ماسیوں پر الزام لگا دیا جاتا ہے، بعد میں پتا چلتا ہے کہ کہیں رکھ کر بھول گئے تھے یا کسی گھر والے کی حرکت ہے۔ اس بہتان کی اللہ کے یہاں سخت پکڑ ہے۔ ملازمین کے معاملے میں عدل و انصاف کا حکم ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’کھانا اور پہننا مملوک کا حق ہے اور اس کی طاقت سے باہر کام کی تکلیف نہ دی جائے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ ’’مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ ہر ہفتے کے روز مدینے کے آس پاس گائوں میں جایا کرتے تھے اور جب کسی غلام کو کوئی ایسا کام کرتے دیکھتے، جو اس کی طاقت سے زیادہ ہوتا، تو اسے کم کردیتے۔‘‘ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’جس میں تمہارے بھائی کو اللہ تعالیٰ تمہارا مملوک (غلام، خادم) بنادے، اسے وہی کھلائو، جو تم کھاتے ہو اور اسے وہی پہنائو، جو تم پہنتے ہو اور ایسے کام کی اسے تکلیف نہ دو، جو اس پر غالب آجائے اور اگر غالب آنے والے کام کی تکلیف دو، تو اس کی مدد کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)۔
ملازم پر مال خرچ کرنا:ملازم یا خادم کی ضروریات کا خیال رکھنا اور تن خواہ کے علاوہ ان کی مالی مدد کرنا نہایت پسندیدہ فعل ہے، جس کا اللہ کے یہاں بڑا اجر و ثواب ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور ؐنے فرمایا ’’اللہ کے راستے میں انفاق کرو۔‘‘ اس پر ایک شخص نے حضورؐ سے پوچھا۔ ’’میرے پاس ایک دینار ہے، مَیں اسے کیسے خرچ کروں؟‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’اپنی ذات پر خرچ کرو۔‘‘ اس نے کہا ’’میرے پاس ایک اور ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اپنی بیوی پر خرچ کرو۔‘‘ اس شخص نے کہا۔ ’’میرے پاس ایک اور ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’اپنے خادم پر خرچ کرو۔ اس کے بعد اپنی بصیرت سے انفاق کی ترتیب و ترجیح بنالو۔‘‘ (صحیح بخاری)۔ اس حدیثِ مبارکہ ؐ میں اللہ کے رسولؐ نے اپنے اہلِ خانہ کے بعد اپنے ملازم پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دی، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں ملازم کی کتنی اہمیت ہے۔ ملازم اور خادم پر مال خرچ کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ اسے ماہانہ بنیادوں پر غذائی اجناس دلائی جاسکتی ہیں۔ سردیوں میں کمبل، لحاف اور تہوار کے مواقع پر ملازم کے اہلِ خانہ کے کپڑے بنوا کر دے سکتے ہیں۔ ان کے بچّوں کی تعلیم اور شادی بیاہ کے اخراجات کی مد میں رقم دی جا سکتی ہے۔ یہ اضافی معاونت ہے، جو ان کی اجرت اور دیگر ماہانہ سہولتوں کے علاوہ ہوگی۔
دینی اور دنیاوی تعلیم کا انتظام کرنا:اسلام میں تعلیم کی جو اہمیت ہے، وہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ پر نازل ہونے والی پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی ’’اقراء‘‘ یعنی پڑھ ہے۔ گھر کے مالکان کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو، جہاں تک بھی ممکن ہو، دینی و دنیاوی تعلیم سے بہرور کریں۔ یہ وہ صدقہ جاریہ ہے کہ جس کا ثواب انہیں تاقیامت ملتا رہے گا۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا۔ ’’آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ (متفق علیہ)۔پڑھا لکھا ملازم، جاہل ملازم سے ہزار درجے بہتر ہے۔ علم کے فروغ کے لیے مالکان اور صاحبِ حیثیت افراد کی یہ کاوشیں ان کے لیے راہِ نجات بھی ہوں گی اور جنّت کے حصول کا ذریعہ بھی۔اللہ تبارک تعالیٰ ہمیں اپنے گھریلو ملازمین، خادمین اور دیگر زیرِکفالت افراد کے ساتھ عدل و انصاف کرنے اور ان کے جملہ حقوق کی بہ احسن طریقے سے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں رحم کرنے، درگزر کرنے اور معاف کرنے کی صفت پیدا فرمائے۔