• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کو پانی کی جس شدید قلت کا سامنا ہے اس کا اندازہ سب کو ہے مگر یہ امر باعث حیرت ہے کہ اس باب میں کبھی کوئی موثر منصوبہ بندی اور نہ ہی کوئی حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔ گزشتہ 48سال سے پاکستان میں کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا گیا اس کے باوجود کہ پاکستان کی 20فیصد شرح ترقی پانی پر منحصر ہے اس سنگین صورتحال کے پیش نظر چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ تشکیل دیا گیا جو آئندہ ہفتے سے چاروں صوبائی اور دارالحکومتوں میں ڈیم کی تعمیر اور پانی کی کمی کے مسائل سے متعلق مقدمات سنے گا۔ گزشتہ روز چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پانی کی قلت اور نئے ڈیمزکی تعمیر سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج سے ہماری ترجیحات میں سب سے اہم پانی ہے۔ یہ واٹر بم کا معاملہ ہے ہم پانی کے مسئلے کو بہت سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں، اس بات پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں پانی کا ذکر نہیں ،یوں تو پورے ملک میں پانی کی شدید قلت ہے۔ کراچی میں پانی کی عدم فراہمی نے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے جن پر قابو پانے کے لئے جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں واٹر کمیشن بنایا گیا۔ کمیشن نے کے الیکٹرک کو پمپنگ اسٹیشنوں کو سات دن میں بجلی فراہمی کرنے کی ہدایت کی جبکہ ڈی ایچ اے اور کلفٹن کنٹونمنٹ کے علاقوں میں تعمیرات پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بنائے گئے بینچ اور جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تشکیل دیئے گئے کمیشن کی رپورٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پانی کی عدم فراہمی کا مسئلہ اداروں کی عدم توجہی اور آپس میں ربط نہ ہونے کی وجہ سے ہےعالمی بینک نے بھارت کے متنازع آبی منصوبوں کشن گنگا اور تلے پن بجلی منصوبوں کا معاملہ 2سال لٹکانے کے بعد پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ثالثی عدالت سے متعلق اپنی درخواست واپس لے لے اور بھارت کی تجاویز قبول کرلے۔ یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ پانی کی فراہمی کے بارے میں ٹھوس حکمت عملی وضع کی جائے۔

تازہ ترین