• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی بنک کے ویمن بزنس اینڈ لا انڈیکس سے ظاہرہوتا ہے کہ پاکستانی خواتین کو سماجی اورمعاشی اعتبار سے 50بنیادی حقوق میں سے صرف 23حقوق حاصل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی خواتین زندگی کے ہر معاملے میںخاوند کا حکم بجا لانے کی پابند نہیں البتہ انہیں مردوں کی طرح پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوانےکی آزادی نہیں۔ انہیں گھر سے باہر جانے، ملک سے باہر جانے، ملازمت کرنےاور کسی قسم کامعاہدہ براہ راست کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ کاروباررجسٹرکروانے اور رہائش کے متعلق فیصلے کی آزادی ہے تاہم اپنے خاندان کی سربراہ بننے کااختیار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کا اسکور 100تسلیم کرلیا گیا ہے۔حقوق نسواں میں زیادہ تر وہی حقوق شامل کئےجاتے ہیں جن کے استحقاق کےحوالے سے سماج مرد اور عورت کے درمیان فرق روا رکھتاہے لہٰذا عام اصطلاح میں خواتین کے تحفظ کی یقین دہانی، معاشی خودمختاری،ہمہ قسم استحصال سے تحفظ، حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پر ملازمتیں، مردوںکے برابر تنخواہیں، پسند کی شادی کا حق، جائیداد رکھنے اور تعلیم کا حق شامل ہیں۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے پاکستان کا ماضی کچھ زیادہ درخشاں نہیں تھا لیکن صد شکر کہ شعورو آگہی کے فرو غ نے خواتین کو ان کے حقوق دلانے میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ آج ہر شعبہ میں خواتین متحرک و فعال ہیں اوربلاخوف و خطر۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ یہ صورتحال محض بڑے شہروںمیں نمایاں ہے۔ قبائلی اور پس ماندہ علاقوں میں حالات مختلف ہیں جب تک ہم اس حقیقت کو باور نہیںکرلیتے کہ اپنی آدھی آبادی کو بے مصرف کرکےہم ترقی نہیں کرسکتے، حالات میں مزیدبہتری آسان نہ ہوگی۔ ہمیں خواتین کو ان کے حقوق کی فراہمی کیلئے حکومتی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ خواتین کو انکے وہ حقوق بہم پہنچانے میںکوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنا ہوگا جو انہیںاسلام اور آئین پاکستان فراہم کرتا ہے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین