اسلام آباد (طارق بٹ) آل شریف، آل بھٹو اور آل زرداری اپنی اولادوں کو زیادہ سے زیادہ انتخابی میدان میں اُتار رہے جو اپنی انتخابی سیاست شروع بھی کررہے ہیں۔ ان خاندانوں کی کم از کم چار اولادیں 25جولائی 2018کو ہونے والے عام انتخابات میں شریک ہوں گی۔ ان میں سے کچھ ماضی میں اپنے بزرگوں یا جماعتوں کی انتخابی مہم چلاتے رہے ہیں۔ لیکن اس سے قبل انہوں نے مختلف وجوہ سے خود کوئی براہ راست انتخاب نہیں لڑا۔ معزول وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم لاہور اور کسی ایک اور حلقے سے قومیاسمبلی کی نشست کیلئے امیدوار ہوں گی۔ این اے 125 جو نئی حلقہ بندیوں سے قبل حلقہ این اے 120 لاہور تھا۔ اس کیلئے مریم نے کاغذات نامزدگی حاصل کرلئے ہیں۔ اس نشست پر ان کے والد نواز شریف کامیاب ہوئے تھے جنہیں گزشتہ 28جولائی کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا۔ جس پر ان کی اہلیہ کلثوم ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوئی تھیں۔ نوازشریف دور کے دوران مریم نے ان کے قریب رہ کر سیاست سیکھی اور کام کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی سوشل میڈیا ٹیم کی وہ نگراں ہیں۔ تن تنہا اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلائی ۔2013سے سیاست میں سرگرم اورخبروں میں ہونے کے باوجود ان کے پاس کوئی سرکاری یا پارٹی عہدہ نہیں رہا۔ لیکن وہ مکمل طورپر سیاسی اکھاڑے میں کودچکی ہیں۔پہلا موقع ہے کہ مریم کو مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی بورڈ میں شامل کیاگیا ہے جو امیدواروں کے انتخاب اورانہیں ٹکٹ دینے میں مصروف ہے۔ان پر احتساب عدالت میں تین ریفرنسز زیر سماعت ہیں۔ جن میں ان کے والد اور دونوں بھائی بھی ملوث ہیں۔ ان کے خلاف بھی فیصلے آسکتے ہیں۔ یہ بھی سنا جارہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بیٹے سلمان بھی آئندہ انتخاب لڑنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔ ابھی اس کا باقاعدہ اعلان نہیں ہوا۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کے لئے بھی انتخاب لڑنے کا پہلا موقع ہوگا۔ ان کی والدہ بے نظیر بھٹو مرحومہ ہمیشہ لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوتی رہیں۔پیپلزپارٹی بلاول کو پنجاب میں چنیوٹ کی نشست سے انتخاب لڑانے کی تجویزپر غور کررہی ہے۔ ان کے لئے وہاں سے کاغذات نامزدگی حاصل کر لئے گئے ہیں۔ تاہم اس معاملے میں پیپلزپارٹی کے اندر رائے کا اختلاف ہے۔ پنجاب سے تو پیپلزپارٹی کے لئے امیدواروں کاچنائو تک دشوار ہے۔ یہ اس کے لئے بری افسوسناک صورتحال ہے۔ سابق صدر آصف زرداری اورپارٹی سربراہ بلاول نے پنجاب میں پارٹی کے احیاء کے لئے بڑی کوشش کی ہیں لیکن انہیں ناکامی ہوئی ہے۔ بلاول کی چھوٹی بہن آصفہ بھی اپنی انتخابی سیاست کا آغاز کررہی ہیں۔ وہ رتوڈیرو سے سندھ اسمبلی کی نشست کیلئے امیدوار ہوںگی۔ ایک بہن بختاور سیاست سے دورہیں۔ آصف زرداری خود نوابشاہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر امیدوار ہوں گے۔ انتخابی سیاست میں وارد مریم 28 اکتوبر 1973 کو پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کانونٹ آف جیزز اینڈ میری سے حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں ایم اےکیا۔ بتایا جاتا ہے کہ 2012 میں سانحہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندی پر پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کے لئے انتخابی سیاست کا پہلا تجربہ ہوگا۔ بلاول تین ماہ کے تھے جب 1988 میں ان کی والدہ بے نظیر بھٹو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔بعد ازاں انہیں ایچی سن کالج لاہور میں داخل کرایا گیا لیکن سلامتی کو لاحق خطرات کے باعث کراچی گرامر اسکول منتقل کر دیا گیا۔ جس کے بعد فروبیلز انٹرنیشنل اسکول میں داخلہ لیا۔ اپریل 1999 میں خود ساختہ جلاوطنی کے تحت بلاول اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ دبئی اور پھر لندن چلے گئے۔ 2007 آکسفورڈ یونیورسٹی کے تحت کرائسٹ چرچ کالج میں داخلہ لیا۔ آصفہ بھٹو زرداری نے گلوبل ہیلتھ میں یونیورسٹی کالج لندن سے ماسٹرز کیا۔ پاکستان میں خاندانی اورموروثی سیاست کی جڑیں بڑی گہری ہیں جبکہ بھارت، بنگلہ دیش ، سری لنکا میں بھی موروثی سیاست اپنی جڑیں رکھتی ہے۔