حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت تمام ہونے پرملک میں عارضی سیاسی بھونچال دکھائی دے رہا ہے۔لیکن یہ ہنگامہ سطحی ہے۔ اس کے نیچے مخفی توانائی رکھنے والی ایک زبردست لہر موجود ہے۔ عین ممکن ہے کہ ملک کے سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والے بہت سے مبصرین اسے نہ دیکھ پارہے ہوں۔ اور یہ بات قابل ِ فہم ہے ۔نگراں حکومتوں، حلقہ بندیوں اور حتیٰ کہ انتخابی فارمز پر ہنگامے سے اٹھنے والی گرد اتنی دبیز ہے کہ اس حقیقت کا نظروں سے اوجھل ہوجانا بعید از قیاس نہیں ۔ یہ وہ اہم مرحلہ ہے جہاں سے ہماری قومی سیاست کا ایک نیا باب شروع ہوا چاہتا ہے ۔
پانچ سال بعد، اور ایسا ملک کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہورہا ہوگاکہ توجہ کا ارتکاز نواز شریف اور اُن کے مقدمات سے ہٹ کردیگر حرکیات ، جیسا کہ پارٹیوں کے فیصلے ، اُن کی اپنے ووٹروں کو قائل کرنے کی صلاحیت اور اُن کے دعوئوں کی ساکھ پر مبذول ہوچکا ہوگا۔ اُن کی کمزوری اور طاقت کی جانچ ہوگی۔ پانچ سالوں میں پہلی مرتبہ سیاسی بحث مرکزی حکومت اور پنجاب پر نہیںہوگی۔ اس کے بجائے اداروں، جیسا کہ الیکشن کمیشن اور عدلیہ کی صلاحیت بحث کا موضوع بنے گی۔ اس بات کی جانچ کی جائے گی کہ وہ اپنا آئینی کردار کس خوبی سے اداکرتے ہیں۔ مزید یہ کہ گزشتہ پانچ سال میں یہ مرحلہ بھی پہلی مرتبہ آئے گا جب سول ملٹری روابط پر کوئی بات نہیں ہوگی۔اور یہ باتیں ڈرائنگ رومز، کارنر میٹنگز، سیاسی جلسوں میں اور دیگر عوامی مقامات پر کی جائیں گی ۔
پانچ سال میں یہ وقت بھی پہلی مرتبہ آئے گا جب سازش اور پس پردہ ڈیلز کی سرگوشیاں دم توڑ جائیں گی، خاص طور پر وہ جن کا نتیجہ سینیٹ کے انتخابات کی صورت ہمارے سامنے ہے ۔ اس کے بجائے قومی توجہ حقیقی پاکستان کی گلیوں اور بازاروں کی طرف مڑ جائے گی۔ پھر میڈیا سنسر شپ کا کیا بنے گاجس کے سامنے سر جھکا دیا گیا ہے؟ قلم پر تو قدغن لگائی جاسکتی، عوام کی زبان بندی کیسے ہوگی؟
ان عظیم تبدیلیوں میں سے صرف ایک کا ذکر کرلیتے ہیں۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ پاکستان تحریک ِ انصاف کے لئے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران دکھائے جانے والے رویے کی وضاحت کرنا کس قدر تکلیف دہ حد تک مشکل تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے سامنے مکہ بازی کے لئے کوئی نواز حکومت نہیں تھی۔اسے حکومت کی نااہلی کو جواز بنا کر چڑھائی کرنے کاکوئی بہانہ میسر نہ تھا۔
حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ کھینچنے والے بہانے ختم ہوچکے ۔حکومت وقت کی پالیسیوں کو ہدف بناکر جذبات کی چاندماری کا دور تمام ہوا۔ اب آپ کس کے حوالے سے الزام تراشی کریں گے؟ اب کسی کے پاس طاقت ور حریف کے ناپاک منصوبے کابہانہ بھی موجود نہیں۔ عملی طور پر تمام سیاسی جماعتیں میدان میں موجود ہیں۔ اب وہ اپنے قول وفعل کی ذمہ دار ہیں۔ اب کوئی منچلا بدعنوان مافیا کے ساتھ نبرد آزما نہیں۔ کوئی مسیحا ملک کو بچانے کے لئےنازل نہیں ہونے جارہا۔
دراصل ان بہانوں کا پول پہلے ہی کھل چکا ہے ۔ انتہائی آسان اور سیدھے سادھے معاملات پر پی ٹی آئی کے چہار پا یوٹرن سے عوام پر بہت کچھ واضح ہوچکا ہے ۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگراں حکومتوں کے لئے کسی غیر جانبدار شخص کا نام لینا تھا۔ تو عوام نے دیکھ لیا کہ جب ایک بنیادی سیاسی چیلنج سامنے آیا اور اسے اپنے طور حل کرنا تھا تو کیمپ میں کتنی کنفیوژن پھیلی؟کس درجہ نااہلی کا جادو سرچڑھ کر بولا۔ ایک طویل عرصے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت اس بے بسی کے عالم میں دکھائی دی ۔ وہ اپنی خرابیوں کا الزام کس حکومت پر لگاتی؟ گزشتہ ایک ہفتے کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی میں خود سے فیصلہ سازی کا کیا معیار ہے ۔ اس سے پہلے اس پر کسی نے توجہ نہیں دی تھی کیونکہ حکومت ایک ہدف کے طور پر سامنے تھی۔ اب یہ کیا دھماکہ کرتی ؟ الزام تراشی کی سیاست ایک روز خود اپنا ہی شکار بن جاتی ہے ۔ نواز حکومت پر لاکھوں مکے برسانے کے بعد جب پی ٹی آئی کے سامنے کوئی ہدف نہ رہا تو اپنا مکہ اپنے منہ پر ہی لگ گیا۔ جب آپ ہر قیمت پر اپنے حریف کو جسمانی طور پر تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہوں تو پھر میچ پوائنٹس تک محدود نہیں رہتے۔
میڈیا اور سماجی حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ پی ٹی آئی نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگراں حکومت کے لئےعجیب وغریب نام کیوں پیش کئے ؟اس موضوع پر بات کی نوبت اس کے لئے نہ آسکی کیونکہ ٹی وی پر وزرا کی پریس کانفرنس اور بیانات کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ اپوزیشن لیڈر کے ساتھ بات چیت پر تبصرے جاری تھے حکومتوں کی آئینی مدت کے خاتمے نے اس فضا کو نسبتاً صاف کردیا۔ اب سیاسی جماعتوں کی خوبیوں اور خامیوں کا تجزیہ اور جانچ کرنے کا وقت ہے ۔
اس کا مطلب ہے کہ اب پی ایم ایل (ن) کی حکومت کی خامیاں گنوا نے کو اپنی خوبی ظاہر کرنے کی عیاشی ختم ہوچکی ۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پی ٹی آئی نے اس موضوع کو اتنا رگیدا کہ اب پنجاب اور مرکزکی حکومتیں ختم ہونے کے بعد اس کے پاس کہنے کے لئےکچھ نہیں ہوگا۔ہمہ وقت الزام تراشی کے بعد اب تحمل سے بات کریں گے تو سننے والوں کو مزہ نہیں آئے گا۔ کیا اپوزیشن نئے نعرے کے ساتھ قومی بحث کوکسی اور طرف لے جاسکے گی ؟ کیا شریف فیملی کے خلاف کیچڑ اچھالنے کے بعد آپ انہی ہاتھوں سے عوام کو مستقبل کے منصوبے سمجھائیں گے ؟نہیں ، یہ ہاتھ دھونے میں بہت وقت لگ جائے گا۔
نواز لیگ کے لئے یہ مسئلہ سنگین نہیں ہے۔ پنجاب اور مرکز میں اُن کے پاس کہنے کے لئے بہت سادہ سی بات ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اُنھوںنے کام کیا ہے ۔ اُن کے ترقیاتی منصوبے دوسروںسے کہیں بڑھ کر ہیں۔اور ترقیاتی منصوبوں کی فہرست اُن کے ہاتھ میں ہے، اس لئے اُنہیں بہت زیادہ بیان بازی کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ اُنھوںنے مقامی سطح پر فنڈز بھی جاری کئے ہیں۔ اب چونکہ وہ حکومت میں نہیں ہیں، اس لئے اب کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیا یہ درست قومی ترجیحات تھیں یا نہیں۔ پی ٹی آئی خیبرپختونخواہ ،اور پی پی پی سندھ میں یہی دلیل دے سکتی ہے ، لیکن پھر اُنہیں دعوئوں اور حقائق کے درمیان ہوشربا فرق کم کرنے کے لئے خصوصی شماریات ایجاد کرنی پڑے گی۔ لیکن اگر وہ اپنی کارکردگی کے دعوئوں کے ساتھ عوام کے دل جیتنے میں کامیاب ہوجائیں تو بھی اس سے پنجاب میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اور پنجاب ہی وہ میدان ِ جنگ ہوگا جہاں فتح پاکستان کے مستقبل کے رہنما کا تعین کرے گی۔ پی ٹی آئی اور پی پی پی کے پاس پنجاب کے ووٹر کو بتانے کیلئے کیا ہے ؟ وہ صرف نواز لیگ کے خلاف ناراضی کے بیانیے کو بھڑکا سکتے تھے۔ لیکن وہ اتنی دیر سے ایسا کررہے ہیں کہ اب اس میں جان باقی نہیں رہی ۔ اب یہ بیانیہ اکتاہٹ آمیز ہوچکا ہے ۔ محبت اور نفرت، دونوں ہنگام وقت پر موقوف ہیں، ہمہ وقت نہیں۔
ایک امکان البتہ موجود ہے، کہ اگر پی ٹی آئی معقول رویوں کا مظاہرہ کرتی تو لوگ اسے اعتماد اور بھروسے کی نظروںسے دیکھ سکتے تھے ۔ لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے رویے اورپچھلے پانچ سال کی الزام تراشی کے بعد اب لوگ اسے غیر یقینی نظروںسے دیکھ رہے ہیں۔ پنجاب کے نگراںوزیر ِاعلیٰ کے لئے ناصر کھوسہ جیسے نیک نام شخص کی تذلیل کرتے ہوئے پی ٹی آئی قیادت نے خود اپنی ساکھ مجروع کرلی ہے ۔
اس کے علاوہ طالبان کے ہمدردوں اور خواتین سے نفرت کرنے والوں کی طرف ان کے جھکائو نے بھی معقول افراد کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔ اس حوالے سے پی پی پی کو سندھ میں کریڈٹ جاتاہے کہ اس نے نگراں حکومت کا بہت آسانی سے فیصلہ کرلیا۔
ابھی قومی سیاست میں اس مرحلے کا آغاز ہے جہاں پی ٹی آئی کے پاس ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کےلئے مخالفین کی خرابیاں گنوانے کا بہانہ موجود نہیں۔ اب پارٹیوں کی کارکردگی، امیدواروں کی ساکھ اور رائے عامہ کا کھیل ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ اب معقولیت اور ڈھنگ سے بات کرنی پڑے گی۔ انتخابات کا نقارہ بج چکا۔ لیکن یہ ایک نئی طرز کا پیچ ہے۔ پرانی مسابقت میں یہ پیچ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پڑتا تھا۔ اس مرتبہ ہماری تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی جماعتوںکو کسی اور حریف کا نہیں، خود اپنے آپ سے مسابقت کا سامنا ہے ۔ ہر کسی کو عوام کی تیز عقابی نظروں کے سامنے خود کو پیش کرنا ہے ۔ اور عوام بھی دیکھ رہے کہ کس طرح ’’اٹھتے ہیں حجاب آخر۔‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)