• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پر غیر ضروری دباؤ دھونس اور دھمکیوں کے کارگرنہ ہونے پر امریکہ کو بالآخر احساس ہو گیا ہے کہ افغانستان میں طاقت کے استعمال سے پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کیلئے کابل حکومت اور طالبان کے درمیان سیاسی مذاکرات کے ذریعے مفاہمت ضروری ہے اور یہ عمل پاکستان کو شریک کئے بغیرممکن نہیں سفارتی ذرائع کے مطابق نگران وزیراعظم جسٹس(ر) ناصر الملک سے گزشتہ روز امریکی نائب صدر مائیک پینس اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ٹیلی فونک رابطے اسی سلسلے کی کڑی ہیں ۔ ان رابطوں کے نتیجے میں برف پگھلنے لگی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ پاکستان کی مقتدر شخصیات سے امریکی رہنماؤں کے رابطوں کے دوران افغانستان کی صورت حال کے پس منظرمیں جنوبی ایشیا میں موجود تمام عسکری اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کے علاوہ پاک امریکہ دو طرفہ تعلقات آگے بڑھانے کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ امریکی صدرٹرمپ کی مشیر لیزا کرٹس نے واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ امریکہ نے افغان امن عمل کو کامیاب بنانے کیلئے اسلام آباد سے مدد مانگی ہے دونوں ممالک افغانستان میں عارضی جنگ بندی کیلئے مل کر کام کر رہے ہیں جو اس مسئلے کے حل کی جانب اہم پیش رفت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان کےسیکورٹی خدشات اور مفادات کا ادراک ہےکابل حکومت نے طالبان سے عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ امریکی اور نیٹو افواج بھی اس پر عمل کریں گی اور طالبان نے فائر بندی کی خلاف ورزی نہ کی تو ان پر حملے نہیں کئے جائیں گے۔ امریکی مشیر نے اگرچہ ڈومور کا پرانا مطالبہ دہرایا تاہم لہجہ نرم رکھتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان سے اس معاملے میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ طالبان نے کابل حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کاکوئی جواب نہیں دیا لیکن یہ بات اہم ہے کہ انہوں نے اسے مسترد بھی نہیں کیا۔ افغانستان کے لوگ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ جنگ بندی کے فیصلے میں امریکہ اور پاکستان کی رائے بھی شامل ہے۔ پاکستان کے متعلق امریکہ کی سوچ میں تبدیلی ایک مثبت اقدام ہے اور توقع ہے کہ اس کے نتیجے میں پہلے قدم کے طور پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے سفارتی عملے پر پابندیوں کے فیصلے پر نظرثانی کریں گے۔ اس سلسلے میں پہل امریکہ کرے گا کیونکہ پابندیاں بھی پہلے اسی نے لگائی تھیں۔ افغان امن کے حوالے سے پاکستان کا کردار ہمیشہ مثبت رہا۔لیکن ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان پر فوجی امداد روکنے سمیت مختلف پابندیاں لگانا شروع کردیں اوربھارت کی طرف جھکاؤ بڑھادیا۔امریکہ کی شہ ملنے پر بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام پر ظلم وستم کا بازار گرم کردیا۔امریکہ بھارت کو اس خطے میں چین کے خلاف کھڑا کرناچاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف بھارت کی ہاں میں ہاں ملارہاہے جبکہ دنیا بھر نے اس منصوبے کی افادیت تسلیم کی ہے۔ایک سپرپاور کی حیثیت سے امریکہ کو خطے کے امن کےلئے منصفانہ کردار اداکرنا ہوگا۔اس حقیقت کوتسلیم کرنا ہوگا کہ افغان امن کے علاوہ تنازعہ کشمیر کاحل بھی خطے کے امن کی بنیادی کلید ہے۔خود امریکہ سلامتی کونسل میں کشمیریوں کوحق خودارادیت دلانے کی قراردادوں کامحرک تھا۔اسے چاہئے کہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔پاک امریکہ تعلقات کاانحصار دوسرے معاملات کے علاوہ کشمیر کے مسئلے پرامریکہ کے مثبت رویے پر ہے ۔امریکہ نے باہمی تناؤ دور کرنے کےلئے جو سلسلہ جنبانی شروع کی ہےوہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ وہ افغان امن کے مسئلہ پرہی نہیں دوسرے معاملات پربھی پاکستان کے تحفظات دور کرنے کے لئے اپنی حکمت عملی تبدیل کرے گااور سٹریٹیجک پارٹنر کے طورپر پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھے گا۔

تازہ ترین