• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

؎ دِلوں میں پیار جگانے کو عید آئی ہے… ہنسو کہ ہنسنے ہنسانے کو عید آئی ہے… مسرّتوں کے خزانے دیے خدا نے ہمیں… ترانے شُکر کے گانے کو عید آئی ہے… مہک اُٹھی ہے فضا پیرہن کی خوشبو سے …چمن دِلوں کا کھلانے کو عید آئی ہے… خوشا کہ شِیر و شکر ہو گئے گلے مل کر… خلوصِ دِل ہی دِکھانے کو عید آئی ہے …اُٹھا دو دوستو اس دُشمنی کو محفل سے …شکایتوں کے بُھلانے کو عید آئی ہے… کیا تھا عہد کہ خوشیاں جہاں میں بانٹیں گے… اسی طلب کے نبھانے کو عید آئی ہے۔ آج عید الفطر کامبارک دِن ہے اور شاعر محمد اسد اللہ نے کمالِ ہُنر سے چند مصرعوں پر مشتمل اپنی نظم میں اس تہوار کی رُوح کو سمو دیا ہے۔ یہ عظیم الشّان تہوار ماہِ صیّام میں روزے رکھ کر تزکیۂ نفس کرنے والوں اور تراویح میں قرآنِ پاک پڑھنے اور سُننے کی سعادت حاصل کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے۔ اسی خوشی و مسرّت کے موقعے پر مسلمانانِ عالم نئے ملبوسات زیبِ تن کر کے نمازِ عید کی ادائیگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شُکر بجا لاتے ہیں۔ 

پھر یہ خُوب صُورت تہوار دِید اور مِلن کی گھڑی بھی ہے، جو ہمیں تمام ناچاقیاں، کدورتیں اور نفرتیں بُھلا کر ایک ساتھ مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ تہوار ہمیں مفلس اور نادار طبقات کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے، اتحاد اور رواداری کا درس بھی دیتا ہے، جس کی اہلِ پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔ ان دِنوں مُلک میں سیاسی گہما گہمی بھی عروج پر ہے کہ آیندہ ماہ کے آخر میں عام انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے۔ عید کے اس پُر مسرّت موقعے پر قارئین کی دِل چسپی کے لیے ہم مختلف شعبہ ٔہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی چند نام وَر شخصیات کے عید کے معمولات اور قوم کے نام اُن کا پیغامات ایک سروے کی شکل میں پیش کر رہے ہیں۔

مفتی منیب الرحمٰن، عالمِ دین، چیئرمین رویت ہلال کمیٹی

تشکر، اجتماعیت، خود احتسابی کا دِن

شرعی اعتبار سے عید نمازِ عیدکی صُورت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اجتماعی نذرانۂ تشکّر اور مسلمانوں کی جمعیت اور اجتماعیت کا مظہر ہے ۔ اسلام میں عید اور بندگی کی معراج یہی ہے کہ بندہ اپنے خالق ومالک کے حضور عجز و نیاز اور انکسار کا پیکر بن کر سر بسجود ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’اور تمہیں چاہیے کہ (روزوں کی) گنتی پوری کرو اور اُس نے تمہیں جو ہدایت دی ہے،اس پراللہ کی کبریائی بیان کرو، تا کہ تم شُکر گزار بن جائو، (البقرۃ185:)‘‘۔ باقی ہر خطّے کے اعتبار سے اپنی اپنی روایات ہوتی ہیں۔ میرا عید کا دِن رشتے داروں، عزیز و اقارب اور دوست احباب کو عیدِسعید کی مبارک باد دیتے اور وصول کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال نے کہا ہےکہ؎ عیدِ آزاداں شکوہِ مُلک و دِیں…عیدِ محکوماں ہجومِ مومنیں۔میرا عیدالفطر کے موقعے پر یہ پیغام ہے کہ ہم انفرادی واجتماعی اور ریاستی سطح پر سچ بولیں ،سچ کو قبول کریں،سچ پر عمل کریںاور سچ کا سامنا کریں، جب کہ ہم بہت کم ایسا کر پاتے ہیں ۔آج کا سچ یہ ہے کہ ہم سیاسی اعتبار سے منقسم اور سیاسی واقتصادی اعتبار سے غیر مستحکم ہیں۔ ہم عن قریب عام انتخابات کے مرحلے سے گزرنے والے ہیں، لیکن ہمارے انتخابات کے نتائج ہمیشہ سوالیہ نشان رہے ہیں ۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ آیندہ 10،20برس کے لیے ایک متفق علیہ قومی ایجنڈا ترتیب دیا جائے اورجوبھی سیاسی جماعت یا سیاسی جماعتوں کا اتحاد اقتدار میں آئے، وہ اس ایجنڈے پر عمل کا پابند ہو اور اس کے لیے آئینی وقانونی بندش عاید کی جائے، تاکہ ہماری ایک سَمت متعیّن ہوسکے اورہم ہمیشہ تجربات ہی نہ کرتے رہیں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ایٹمی سائنس دان

تشکر، اجتماعیت، خود احتسابی کا دِن

مَیں ان دِنوں علیل ہوں۔ سو، نقل و حرکت محدود ہونے کی وجہ سے گھر ہی میں عید گزاروں گا۔ اسلام آباد کے علاقے، ای سیون میں واقع مسجد میں نمازِ عید ادا کروں گا، جو مَیں نے ہی تعمیر کروائی ہے۔ اس کے بعد گھر آنے والے مہمانوں کی شیر خرمے، کباب اور چائے وغیرہ سے تواضع کروں گا۔ مَیں عید سے قبل ہی کراچی میں مقیم اپنی ہم شِیرہ سے ملاقات کر آیا ہوں کہ علالت کی وجہ سے عید کے موقعے پر اُن سے ملاقات ممکن نہیں، البتہ بیٹیاں اور نواسیاں قریب ہی رہتی ہیں۔ وہ سب عید کے روز میرے گھر آئیں گی اور ہم مل کر عید منائیں گے۔مَیں نے زندگی بَھر نہایت سادگی سے عیدمنائی اور گزشتہ 40برس سے عید کے لیے نئے کپڑے تک نہیں سلوائے۔ اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب سے عید ملنے کے بعد غربا میں امداد تقسیم کروں گا اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزاروں گا۔ مَیںعید الفطر پر عوام کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہوش رُبا مہنگائی کے اس دَور میں غریبوں کی حالتِ زار دیکھ کر جگر پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا، وہ اس موقعے پر اپنے مفلس و نادار رشتے داروں ،اہلِ محلّہ اور مستحقین کی مدد ضرور کریں اور انہیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک کریں۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدّین احمد، سربراہ عام لوگ اتحاد پارٹی

تشکر، اجتماعیت، خود احتسابی کا دِن

مَیں نمازِ عید ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے اپنے آبائو اجداد کی قبروں پر فاتحہ خوانی اور پھر اپنے بزرگوں سے عید ملنےجاتا ہوں۔ میری عادت ہے کہ مَیں اپنے گھر میں عید کی مبارک باد وصول نہیں کرتا۔ عام انتخابات قریب ہونے کی وجہ سے اس عیدالفطر میں سیاسی گہما گہمی بھی شامل ہو چُکی ہے۔ سو، عام لوگ اتحاد پارٹی کا سربراہ ہونے کے ناتے میری سیاسی مصروفیات زیادہ ہوں گی۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ہم پر اہلِ خانہ سے زیادہ اپنے مُلک و قوم کی ذمّے داری عاید ہوتی ہے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ نگراں حکومت ایک ’’واچ ڈاگ ‘‘کے طور پر کام کرے گی اور انتخابات بر وقت اور شفّاف ہوں گے۔ مَیں عید کے موقعے پر قوم کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں اور اُن سے یہ درخواست بھی کرتا ہوں کہ عام انتخابات 5برس میں صرف ایک بار آتے ہیں۔ لہٰذا، وہ سوچ سمجھ کر اپنا ووٹ اہل افراد کو دے، تاکہ اس مُلک میں حقیقی تبدیلی آسکے۔

ڈاکٹر امجد ثاقب، بانی و سربراہ اخوّت فائونڈیشن

تشکر، اجتماعیت، خود احتسابی کا دِن

مَیں عید کادِن لاہور کے فائونٹین ہائوس میں رہائش پزیر 400ذہنی مریضوں کے ساتھ گزاروں گا۔ ان افراد سے عید، بقر عید پر بھی ان کا کوئی رشتے دار یا عزیزملاقات کے لیے نہیں آتا۔سو، مَیں اور میری ٹیم ان کے ساتھ عید منائے گی۔ پھر اخوّت فائونڈیشن کے 7000ملازمین بھی میرے لیے خاندان کی حیثیت رکھتے ہیں اور مَیں باقی وقت انہی کے ساتھ گزاروں گا۔ ہم عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ عید کا مقصد صرف نئے کپڑے پہننا، کھانا پینا اور رشتے داروں اور دوستوں سے ملنا جلنا ہے، جب کہ بعض افراد یہ دِن سوشل میڈیا پر یا سوتے ہوئے گزار دیتے ہیں، تو مَیں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اس دِن ہم دُکھی انسانیت کے لیے بھی کچھ وقت نکالیں اور غریب و نادار افراد میں خوشیاں تقسیم کریں۔ مَیں عید کے روز عام دِنوں کے مقابلے میں زیادہ کام کرتا ہوں ۔

عطاء الحق قاسمی، کالم نگار و ڈراما نویس

تشکر، اجتماعیت، خود احتسابی کا دِن

مَیںہر سال کی طرح اس بار بھی نئے کپڑے پہن کر اپنے بیٹوں، پوتوں اور نواسوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے جائوں گا اور پھر گھر واپسی پر سب مل کر سویّاں کھائیں گے۔ عموماً میری عید عزیز و اقارب اور دوستوں سے میل ملاقات ہی میں گزرتی ہے، البتہ اس عید کی انفرادیت یہ ہے کہ اب سیاسی سرگرمیاں بھی عُروج پر ہوں گی اور انتخابی امیدوار مجھ سمیت آپ سب کے گھروں کے چکر لگاکے تضیعِ اوقات کا باعث بنیں گے۔ اب انہیں دس دس سال پُرانی شادیاں اور اموات یاد آ جائیں گی اور ایسے لطیفے بھی سُننے کو ملیں گے کہ امیدوار کو جس گھر میں فاتحہ خوانی کے لیے جانا تھا، وہاں اُس نے شادی کی مبارک باد دے دی اور جہاں شادی کی مبارک باد دینی تھی، وہاں فاتحہ پڑھنے پہنچ گیا۔ بہر کیف،مَیں عوام کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ عموماً روایتی طور پر یہ بات کہی جاتی ہے، لیکن یہ بڑی کام کی ہے بات کہ ہمیں عید کے موقعے پر وسائل نہ رکھنے والے افراد کا خیال رکھنا چاہیے۔ نیز، اپنے ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں۔

اصغر ندیم سیّد، ڈراما نویس و شاعر

تشکر، اجتماعیت، خود احتسابی کا دِن

دراصل، عید نام ہی میل جول اور ملاقات کا ہے۔ ہر سال کی طرح اس عید پر بھی رشتے دار، عزیز و اقارب اور بچّوں کے دوست میرے گھر آئیں گے۔ یہ ایک پرُانی روایت ہے، جو آج تک برقرار ہے۔ ویسے مہمانوں کی آمد و رفت کا یہ سلسلہ عید کے تینوں روز ہی جاری رہتا ہے۔ اس مسرّت موقعے پر جب سارے رشتے دار اور دوست احباب مل کر بیٹھتے ہیں، تو عید کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔ عام انتخابات قریب ہونے کے سبب عید کے موقعے پر سیاسی سرگرمیاں بھی عُروج پر ہوں گی۔ اگر اس عید پر عوام میں اپنی ووٹ کی اہمیت کا احساس بیدار ہوتا ہے اور وہ اپنا محاسبہ کرتے ہیں، تو یہ تہوار اُن کے لیے یقیناً باعثِ طمانیت ہو گا۔ عید اپنے ساتھ غور و فکر اور ذمّے داریوں سے عُہدہ برآ ہونے کا پیغام بھی لاتی ہے۔ مَیں قوم کو یہ تلقین کرتا ہوں کہ وہ مل جُل کر عید منائے اور پھر مذہبِ اسلام بھی اتحاد و یگانگت کا درس دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عوام سوچ سمجھ کر اور اہل امیدوارکو ووٹ دیں اور اپنے مستقبل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔

شہلا رضا، سابق ڈپٹی اسپیکر، سندھ اسمبلی

تشکر، اجتماعیت، خود احتسابی کا دِن

عید کے تیسرے اور چوتھے روز میرے بچوں کی برسی ہوتی ہے، جو 2005ء میں ایک اَلم ناک حادثے کی نذر ہوگئے تھے۔ عید قریب آتے ہی اُن کے ساتھ گزرے لمحات کی یادیں تازہ اور پُرانے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ اس موقعے پر مُجھے اور میرے شوہر کو انتہائی کَرب سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کا اندازہ وہی والدین لگا سکتے ہیں، جنہیں اپنی کم سِن اولاد کوخود اپنے ہاتھوں لحدمیں اُتارنا پڑا ہو، لیکن ہم اپنے جذبات دوسروں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے اور نہ ہی انہیں افسردہ یا غمگین دیکھنا پسند کرتے ہیں۔سو، مَیں اپنے بچوں کی یاد دِل میں لیے عید گزارتی ہوں اور مہمانوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتی ہوں۔ عید کے روز مَیں سب سے پہلے قبرستان جاتی ہوں اور اپنے بچّوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کرتی ہوں۔ پھر گھر آکر مہمانوں کے لیے انواع و اقسام کے کھانے تیار کرتی ہوں۔ اس موقعے پر میرے بہن بھائی اور دوسرے رشتے دار گھر آتے ہیں، جن کی مختلف ڈِشز سے خاطر تواضع ہوتی ہے۔ اسی طرح مختلف سیاسی شخصیات کی آمد و رفت بھی جاری رہتی ہے اور خُوب گپ شپ بھی ہوتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مَیں خود پر سوگ یا غم طاری کیے نہیں رہتی، بلکہ خوشیاں بھی مناتی ہوں۔ یہ عید اس اعتبار سے منفرد ہو گی کہ اگلے ماہ عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ مَیں عوام کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اپنی مختصر سی زندگی کو نفرتوں کی نذر نہ کریں۔ اسے ہنسی خوشی اور محبّتیں بانٹتے ہوئے گزاریں۔ قطع تعلّق کرنے کی بہ جائے صلہ رحمی سے کام لیں اور اس مُلک کو امن کا گہوارہ بنا دیں۔

روبینہ اشرف، سینئر ٹی وی آرٹسٹ

تشکر، اجتماعیت، خود احتسابی کا دِن

عید الفطر روزے داروں کے لیے اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام، ہمارادینی و ملّی تہوار ہے اور مُجھے اس عید کا سال بَھر انتظار رہتا ہے ، لہٰذا مَیں بڑے اہتمام کے ساتھ اس کی تیاری کرتی ہوں۔ عید کے روز رشتے داروں اور دوست احباب سے ملنا جلنا بھی ہو گا اور ٹی وی شوز میں شرکت بھی، البتہ میرا خاندان میرا سب سے بڑا سرمایہ ہے اور مُجھے بے حد عزیز بھی ہے۔ مَیں ایک مشترکہ خاندانی نظام کا حصّہ ہوں اور عید کے موقعے پر اہلِ خانہ کا ایک ساتھ مل بیٹھنا، گپ شپ لگانا مُجھے بے حد پسند ہے۔ پھر عید تو تہوار ہی ملنے ملانے کا ہے ، اسے تنہا منایا ہی نہیں جا سکتا،تو اس موقعے پرمَیں اپنے پرستاروںاور پاکستانی قوم کو بھی یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ وہ عید پر اپنے رشتے داروں ، عزیز و اقارب سے ضرور ملیں اور یہ میل جول ہمیشہ برقرار رکھیں۔ نیز، ہمیشہ ایک دوسرے کی خوشی، غمی میں شامل ہوں۔

عارف لوہار، گلوکار

تشکر، اجتماعیت، خود احتسابی کا دِن

عید تو نام ہی دِید کا ہے۔ مَیں اپنے ربّ کے عنایت کردہ اس سوہنے اور بابرکت دِن کو بڑے اہتمام سے مناتا ہوں۔ اس عید پر میری کوشش ہو گی کہ اپنے خاندان اور دوست احباب کو زیادہ سے زیادہ وقت دوں۔ نمازِ عید کے بعد اہلِ خانہ، خاندان کے دوسرے افراد اور دوستوں کے ساتھ مل کر اس خُوب صُورت تہوار کی رنگینی اور لطافت میں اضافہ کروں گا۔ حال ہی میں میرا گانا، ’’میلہ‘‘ ریلیز ہوا ہے، جو بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔ گانے کی مقبولیت نے عید کی رونقیں بھی بڑھا دی ہیں۔ اس کے علاوہ عید کے موقعے پر ریکارڈنگز اور مختلف پرائیویٹ کنسرٹس میں مصروف رہوں گا۔ مَیں عوام کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ متّحد رہیں اور کسی قسم کے تفرقے میں نہ پڑیں اور اس ملک کی ترقّی کے لیے دِن رات ایک کر دیں۔ فن کار ایک فقیر ہوتا ہے اور ایک فقیر کے طور پر میری ہمیشہ یہی دُعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سوہنی دھرتی کو نظرِ بد سے بچائے اور قائم و دائم رکھے۔

دانش تیمور، ٹی وی /فلم اسٹار

تشکر، اجتماعیت، خود احتسابی کا دِن

عید کا دِن نورانی اور اس کی ساعتیں بڑی بابرکت ہوتی ہیں۔ مَیں نمازِ عید کے بعد اہلیہ اور بچّوں کے ساتھ رشتے داروں اور دوستوں سے ملنے جائوں گا۔ عید کا سارا دن فیملی کے ساتھ گزاروں گا اور کسی قسم کی ریکارڈنگز نہیں کروائوں گا۔ مَیں قوم سے درخواست کرتا ہوں کہ ہم نے یہ مُلک بڑی قربانیوں سے حاصل کیا ہے۔سو، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور ہر قسم کے تعصّبات سے بالاتر ہو کر اس کو ترقّی یافتہ بنانے کے لیے سب کو مل کر جدوجہد کرنی چاہیے۔

تازہ ترین