• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کی آئینی درخواست کا فیصلہ آچکا ۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ سابق صدر غلام اسحاق خان ، فوج کے سابق سربراہ جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے 1990ء کے انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے آئی جے آئی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں میں پیسے تقسیم کیے تھے۔ کچھ حلقے اس فیصلے کی روشنی میں حکومت اور حزب اختلاف میں قانونی اور سیاسی دنگل کی خواہش رکھتے ہیں۔ سیاسی میدان میں گرم بازاری سے شغف رکھنے والوں کا شوق اپنی جگہ لیکن ان کی خواہش جمہوریت کے مفاد میں نہیں۔ سپریم کورٹ نے صرف یہ فیصلہ دیا ہے کہ مذکورہ تینوں کرداروں نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جمہوری عمل میں مداخلت کی تھی۔ یہ واقعہ 22 برس پہلے رونما ہوا تھا۔ اسد درانی کا حلف نامہ 1995ء میں سامنے آیا۔ آئینی درخواست 16برس قبل دائر کی گئی۔ اس معاملے کو منطقی انجام تک لے جانے میں مزید کچھ دہائیاں صرف ہو سکتی ہیں ۔ گویا فارسی محاورے کے مطابق گائے نے مثل مقدمہ نگل لی، قصاب نے گائے ذبح کر لی اور قصاب اللہ کو پیارا ہو چکا۔ اب اس ڈھول کو پیٹنے سے سیاسی فضا مکدر تو ہو سکتی ہے، ملک و قوم کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
سیاسی عمل میں غیر منتخب اور غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت پاکستان کی تاریخ کی ایک شرمناک حقیقت رہی ہے۔ سیاسی عمل میں یہ مداخلت تو 1954ء میں اس وقت شروع ہو گئی تھی جب گورنر جنرل غلام محمد نے جنرل ایوب خان کی شہ پر دستور ساز اسمبلی توڑی تھی۔ کیا ایوب خان کی آمریت کو انقلاب قرار دینے والے مریخ سے اترے تھے؟ کیا مغربی پاکستان کی سیاسی قوتوں نے مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن کے خلاف یحییٰ خان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ کیا بعض مذہبی طبقوں نے ضیاء الحق کی وزارتیں قبول نہیں کی تھیں۔ کیا بدعنوانی سے پاک سیاست کے علمبرداروں نے پرویز مشرف کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ جنرل حمیدگل متعدد بار اعلان کر چکے ہیں کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کیلئے آئی جے آئی تشکیل دی تھی۔ یکم مارچ 1993ء کو جنرل اسلم بیگ نے سپریم کورٹ میں اقرار کیا تھا کہ انہوں نے حاجی سیف اللہ کیس میں وسیم سجاد کے ذریعے سپریم کورٹ کو پیغام بھیجا تھا۔ 1988 ء سے 1999 ء تک درپردہ قوتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا وہ کون سا حربہ ہے جس میں جملہ سیاسی قوتیں ملوث نہیں رہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کون سا انتخاب تھا جس میں جھرلو نہیں پھیرا گیا۔ یہاں تو یہ بھی ہوا کہ حسب منشا نتیجہ سامنے نہ آنے پر عوامی فیصلہ ماننے ہی سے انکار کر دیا گیا۔ اصغر خان کیس نے تو صرف 1990ء کے انتخابات کا پول کھولا ہے۔ کہنا چاہیے کہ ایک ایسی حقیقت پر ربع صدی بعد عدالتی مہر ثبت کی گئی ہے جو روز اول سے اہل پاکستان کے علم میں تھی۔
واقعہ یہ ہے کہ اصغر خان کیس کے فیصلے پر کھوکھلی نعرے بازی کی بجائے ایسی سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے آئندہ ایسی مداخلت کا راستہ مسدود کیا جا سکے۔ جمہوری قوتوں کو باہم دست و گریبان ہونے کی بجائے یہ سمجھنا چاہیے کہ آمریت یا درپردہ سازشوں کا ساتھ دینے سے قوم میں اجتماعی اخلاق باختگی پیدا ہوتی ہے۔ آئین انفرادی کردار اور قومی وقار کے لیے چار دیواری کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دیوارمیں نقب لگائی جائے تو پورا جسد اجتماعی ایسی غلاظت کی لپیٹ میں آجاتا ہے جس سے سب کے دامن پر چھینٹے پڑتے ہیں۔
اگر جمہوری حکومتوں پر غیر منتخب قوتوں کی تلوار لٹکتی رہے تو سیاسی قیادت عوامی مفاد کے بنیادی فیصلے کرنے سے معذور ہو جاتی ہے۔ معاشی ترقی کا راستہ کھوٹا ہوتا ہے۔ ریاستی اہلکار سیاسی قیادت کا احترام کرنے کی بجائے اس کی اہلیت پر انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ بھی سیاسی قیادت کو بالادست فیصلہ ساز قوت سمجھنے کی بجائے محض دست نگر اور غیر ضروری عنصر گردانتے ہیں۔ حکومتی کارکردگی میں کسی کوتاہی یا غفلت پر متعلقہ فرد کو ذمہ دار قرار دینے کی بجائے پورے جمہوری نظام کو لتاڑنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ اگر سیاسی قوتیں اس بنیادی نکتے پر اتفاق رائے پیدا کریں کہ عوام کے حق حکمرانی سے روگردانی کو برداشت نہیں کیا جائے گا تو ریاست کے کسی کل پرزے کو یہ جرأت نہیں ہو گی کہ منتخب سیاسی قیادت کی حب الوطنی پر انگلی اٹھا سکے۔ پاکستان میں بدعنوانی اور اقرباء پروری کی موجودگی سے انکار نہیں اور ایسے مجرمانہ افعال کی ہر صورت قانونی جواب دہی ہونی چاہیے لیکن ایسی کوتاہیوں کو جمہوری عمل اور آئینی تسلسل میں مداخلت کا جواز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
گزشتہ پانچ برس میں وفاق اور صوبوں میں منتخب حکومتوں نے نہایت کٹھن حالات میں ایسے ضبط و تحمل سے کام لیا ہے جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال ڈھونڈنی مشکل ہے۔ موجودہ جمہوری نظام اپنی آئینی میعاد مکمل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگرپاکستان آئندہ چند مہینوں میں ہموار طریقے سے انتخابی عمل سے گزر جاتا ہے اور عوام کی تائید سے نئی حکومتیں تشکیل پا جاتی ہیں تو پاکستان میں جمہوری تسلسل کے ضمن میں یہ ایک اہم موڑ ہو گا۔ اصغر خان کیس کے فیصلے سے پیدا ہونے والے قانونی سوالات کو اس بنیادی قومی ذمہ داری کی راہ میں رکاوٹ بننے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ہمیں اپنے ہنگامہ خیز ماضی کی روشنی میں سمجھنا چاہیے کہ سیاسی عمل کے دھارے کمرئہ عدالت میں متعین نہیں ہوتے۔ عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کو قاتل قرار دیا مگر پاکستان کے عوام نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا ۔ عدالت نے میاں نواز شریف کو طیارہ ہائی جیک کرنے کے الزام میں سزا سنائی مگر عوام کی بڑی تعداد آج بھی انہیں اپنا رہنما قرار دیتی ہے۔ جمہوری عمل میں حتمی فیصلہ عوام کے ووٹوں کی صورت میں بیلٹ بکس سے برآمد ہوتا ہے۔ سیاسی تاریخ کی درست تفہیم بے حد ضروری ہے لیکن اسی شعور کا تقاضا یہ ہے کہ شخصی کھینچا تانی سے بلند ہو کر ان اہم مسائل پر توجہ دی جائے جن کا ملک کو سامنا ہے۔
تازہ ترین