• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے قوم کو بالکل درست طور پر متنبہ کیا ہے کہ آئندہ انتخابات کو معمول کا الیکشن نہ سمجھا جائے ، یہ پاکستان کے مستقبل کو مستحکم بھی کرسکتا ہے اور کمزور بھی، اگر کسی نے کوئی شرارت کی اور الیکشن کو متنازع بنادیا تو نتائج نہایت خطرناک ہوں گے۔خورشیدشاہ نے اس حقیقت کی نشان دہی بھی کی کہ غلطیوں کی وجہ سے آدھا پاکستان الگ ہوا آنے والے انتخابات میں ایسی غلطیوں کو دہرایا نہیں جانا چاہیے۔ خورشید شاہ کے بیان کی صداقت پر ہمارے انتخابات کی پوری تاریخ گواہ ہے۔ انتخابی عمل قابل اعتماد ہو تو ملکی استحکام کا ذریعہ بنتا ہے لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں انتخابات کے بالعموم شفاف نہ ہونے ، دھن ‘دھونس‘ دھاندلی کے عمومی ہتھکنڈوں کے علاوہ بعض حلقوں کی جانب سے مرضی کے نتائج کی خاطر اختیار کیے جانے والے ناجائز حربوں کے سبب انتخابی عمل پر وہ اعتبار اب تک قائم ہی نہیں ہوسکا جو قومی یکجہتی کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔تاریخ کے صفحات کھنگالیں تو قوم کا پہلا انتخابی تجربہ 1951ء میں صوبہ پنجاب کے انتخابات کی شکل میں سامنے آتا ہے جس میں ہونے والی دھاندلی نے انتخابی عمل کو مذاق بنا ڈالا۔ ملک میں پہلے عام انتخابات 1970ء میں ہوئے جو بڑی حد تک شفاف کہلائے مگر طاقتور حلقوں نے ان کے نتائج تسلیم نہ کرکے ملک کے دولخت ہوجانے کی راہ ہموار کردی جبکہ 1977ء کے انتخابات کے نتائج کے خلاف شروع ہونے والی تحریک آئینی نظام کی بساط لپیٹے جانے کا سبب بن گئی جس کے بعد جمہوریت کی گاڑی دوبارہ پوری طرح پٹری پر آنے میں گیارہ سال لگ گئے۔ اس تناظر میں سید خورشید شاہ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ پچیس جولائی کے انتخابات اگر پوری طرح نہ شفاف ہوئے تو قومی بقا و سلامتی کے لیے مزید مشکلات جنم لیں گی۔ لہٰذا ملک و قوم سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ کسی جانب سے بھی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہ کی جائے اور مکمل طور پر شفاف ،دیانت دارانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات یقینی بنائے جائیں۔

تازہ ترین