• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزری ہوئی عید باسی خوشیاں
جیسے شادی والے گھر میں گزری ہوئی شادی کے بعد بچے کھچے کھانے ایک دو روز چلتے رہتے ہیں، گزری ہوئی عید کی خوشیاں بھی ایک دو روز انسان کو بلکہ مسلمان کو تر و تازہ رکھتی ہیں، اوپر والی اقلیت کو تو عید پر اخراجات سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن نچلی اکثریت کو عید کے آفٹر شاکس کئی دن محسوس ہوتے رہتے ہیں، اور ایک عرصے بعد اس مرتبہ عید پورے دنوں کی تھی اس لئے اپنی عیدی لے کر ہی ٹلی، مہنگائی حسب معمول سے بڑھ کر تھی، اس لئے کئی خاندانوں نے تو آئی ایم ایف گھرانوں سے قرضہ بھی لیا ہو گا، 30 روزے رکھنے کے بعد پیٹ بھی زیر بار آتا ہے، اور کتنے ہی دن لوگ بار بار طہارت کرتے ہیں، بے تحاشا باہر کے کھانے رنگ لاتے ہیں، کیونکہ 3دن میں ریستوران بھی اپنی طہارت کر چکے ہوتے ہیں، کراچی والے کاروباری کہتے ہیں کہ خریداری میں مندی رہی ٹارگٹ پورا نہ ہوا، لیکن لاہور کے تاجر بہت خوش ہیں، کیونکہ خونِ صد ہزار شہری سے پیدا ہوتی ہے ان کی عید، عید کی بڑی خوشی یہ تھی کہ ملک بھر میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، مفتی منیب الرحمان نے بھی اپنی آخرت سنوار لی کہ قوم کو پورے 30 روزے رکھوا کے چھوڑے، عید کے موقع پر خواتین اور بچے ایک جیسے ہو جاتے ہیں، مگر مرد شوہر حضرات ایسے ہنستے دیکھے گئے جیسے کوئی کھانسنا چاہتا ہے مگر کھانسی نہیں آتی، یا جیسے کسی کی چھینک پھنس جاتی ہے، بہرحال عید چھٹیوں سمیت گزر گئی حقمغفرت کر عجب مہنگی عید تھی۔
٭٭٭٭
تبدیلی بڑی عید تک ملتوی
پہلے تو عمران خان صاحب کا یہ طریق کار تھا کہ تبدیلی محفوظ کر لیتے تھے، اب وہ اسے بڑی عید تک ملتوی کر چکے ہیں، انہوں نے نہایت اطمینان سے فرمایا ہے پُر امید ہوں بڑی عید آئے گی تو پاکستان بدل چکا ہو گا، بدلے گا تو ضرور کہ انسان اور بکرا ایک قیمت میں دستیاب ہوں گے، چھوٹی عید تو اس لئے کچھ مہنگی مہنگی کچھ سڑکے سڑکے گزر گئی کہ خان صاحب وزیراعظم نہیں تھے مگر وہ حسب معمول پُر امید ہیں کہ بڑی عید پر وہ شیروانی پہن کر فیصل مسجد میں عید پڑھیں گے، اور اگر تب بھی خدانخواستہ یہ ہو گیا کہ تبدیلی نہیں شیروانی آئی وے تو وہ پھر اگلی کونسی ڈیٹ دیں گے، سیاست ایک زمانے سے وطن عزیز میں امید سے ہے، مگر ثمر بار نہیں ہوتی، وزیراعظم تو ضرور کوئی نہ کوئی بنتا ہی ہے، مگر عوام کا کچھ نہیں بنتا، عوام کے دن ضرور بدلیں گے، یہ نعرہ سب کا ہے، کیونکہ اب تو یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ بھی باقی نہیں رہی کہ ایک خان ہی نہیں تنہا سب ہی تبدیلی خان ہیں تبدیلی کا ذکر تو قرآن میں بھی ہے مگر وہ مشروط ہے اس بات سے کہ جب تک پوری قوم اپنی حالت میں تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کرے گی کوئی خان کوئی میاں کوئی سب پر بھاری کوئی تبدیلی نہیں لا سکے گا، البتہ قائد کے مزار پر گارڈز ضرور تبدیل ہوتے رہیں گے اور اندر سے آواز آئے گی نادانو یہ والی نہیں پہلے وہ والی تبدیلی لائو کہ میرا پاکستان تیسری دنیا کا ملک نہ کہلائے۔
٭٭٭٭
صاف شفاف حد درکار ہے
نگران وزیر اعلیٰ حسن عسکری نے کہا ہے:صاف شفاف الیکشن کرانے کے لئے آخری حد تک جائیں گے۔ خدانخواستہ شفاف الیکشن نہ ہوں تو آپ کیا صاف الیکشن کرا کے ہی جائیں گے، یہ کوئی نہ بھولے کہ کوئی مانے یا نہ مانے ہماری اس صلاحیت کو کہ ہم صاف شفاف کام کرنے میں من حیث القوم ید طولیٰ رکھتے ہیں، ہم جاگتی ماں کے پہلو سے اسپتال میں بچہ لے جاتے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی نہ ہی پکڑے جاتے ہیں، ایک ذہین قوم کی صلاحیت کو جب کہیں پذیرائی نہ ملی تو اس نے منفی سرگرمیوں میں وہ مقام بنا لیا جو اسے مثبت کاموں میں بنانا چاہئے تھا، گناہ کسی ایک کا نہیں، گناہ فقط سیاستدانوں کا نہیں، حکمرانوں کا نہیں سب کا ہے، پھینٹی بھی سب کو لگ رہی ہے، اسی لئے تو صدر گرامی ممنون حسین کو بہت پہلے الہام ہو گیا تھا کہ اللہ کی پکڑ شروع ہونے والی ہے، اور آج خیر سے ہم اوپر سے نیچے تک زیر پکڑ ہیں، کیونکہ یہاں زیر حراست بھی کوئی زیر حراست نہیں ہوتا، جب قصور سب کا ہے تو سب براہ کرم چپ کر جائیں، کہ کسی کے پاس وہ منہ ہی نہیں جس سے وہ کچھ بول سکے، نگران وزیر اعلیٰ ایک دانشور ہیں، اور پہلی بار کوئی دانشور دو ماہ کے لئے ہی سہی حکمران تو بنا ہے، سب سے بڑے کلیدی صوبے کا، اس لئے وہ اپنے علم کے زور پر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، جب کہ بڑے سے بڑا جن، دیو بھی پلک جھپکنے میں تخت بلقیس نہ لا سکا تھا تب بھی ایک صاحب علم نے اٹھ کر کہا میں لا سکتا ہوں تو کیا حسن عسکری 60دن میں صاف شفاف تخت جمہوریت نہیں لا سکتے۔
٭٭٭٭
مشکل ہے بہت مشکل!
....Oخبر ہے کہ بھارتی گلوکار شیری مان تحریک انصاف کی انتخابی مہم چلانے میدان میں کود پڑے۔
امیدوار صاحب شکریئے کے ساتھ انہیں روک دیں ورنہ وہ ہار جائیں گے، عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہے۔
....Oشیخ رشید:مشرف وطن واپس آئے تو بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے۔
جو یہاں ہیں وہ بھی مشکل میں ہیں، انہیں آنے دیں، ان کی مشکلیں آسان ہو جائیں گی۔
....O خورشید شاہ:عمران کے پاس کرپٹ لوگ، ان کی پارٹی کرپشن کی دولت سے چلتی ہے۔
ان کے تو پاس ہیں آپ کے آس پاس ہیں، ویسے چھاننی کو، کوزے سے یہ نہیں کہنا چاہئے کہ تم میں دو سوراخ ہیں۔
....Oچھوٹی عید اور بڑی عید کے درمیان قوم کی برزخ ہے۔
بڑی عید تک قیامت آ چکی ہو گی، کوئی جنت میں ہو گا کوئی دوزخ میں، اور عوام کا یہ حال کہ ’’ہمہ یاراں دوزخ ہمہ یاراں بہشت‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین