عباسی خلیفہ، ہارون رشید اپنے لائو لشکر کے ساتھ شہر ’’رقہ‘‘ میں خیمہ زن تھے۔ اتفاق سے اس موقعے پر امام الحدیث، حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کا وہاں سے گزر ہوا۔ ان کے استقبال کا یہ عالم تھا کہ لوگ جوق در جوق راستوں پر اس طرح کھڑے تھے، جیسے انسانوں کا سمندر ہو۔ تاحدِنظر لوگوں کے سر ہی سر تھے۔ اُفق پر شدید گرد و غبار چھایا ہوا تھا۔ امام الحدیث کی ایک جھلک دیکھنے کی جدوجہد میں لوگوں کے پیروں کی جوتیاں اُتر چکی تھیں، کپڑے پھٹ چکے تھے۔ خلیفہ کی ایک کنیز نے جب شوق ِدید میں یہ منظر دیکھا، تو حیرت زدہ ہو کر پوچھا ’’یہ کیا ماجرا ہے اور یہ سب کس کے انتظار میں ہیں؟‘‘ اسے بتایا گیا کہ ’’خراسان کے امام و عالم، شیخ الحدیث، حضرت عبداللہ بن مبارکؒ شہر میں تشریف لا رہے ہیں اور یہ خلقت، ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار ہے۔‘‘ یہ سن کر کنیز بے ساختہ کہہ اُٹھی ’’بہ خدا، بادشاہت اس کو کہتے ہیں۔ ہارون کی کیا بادشاہت ہے، جن کے لیے لوگ، اہل کاروں کے زور اور دبائو کے باعث جمع ہوتے ہیں۔‘‘
خواجہ حسن بصریؒ اپنے علم و فضل کی وجہ سے عوام النّاس میں بے انتہا مقبول تھے۔ لوگ ان سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ بنو اُمیّہ کا سخت مزاج حاکم، حجّاج بن یوسف بصرے کا گورنر تھا۔ ایک دن اس نے خالد بن صفوان سے پوچھا ’’بصرے کا سردار کون ہے؟‘‘ اس کا خیال تھا کہ خالد بن صفوان اس کا نام لیتے ہوئے تعریفی کلمات کہیں گے، لیکن خالد نے جواب دیا کہ ’’حسن‘‘ حجّاج نے حیران ہوکر تعجب سے پوچھا کہ ’’یہ کیوں کر ممکن ہے، حسن تو غلاموں کی اولاد ہے۔‘‘ خالد نے نڈر ہوکر بھرے دربار میں جواب دیا۔ ’’حسن اس لیے سردار ہیں کہ لوگ اپنے دین میں ان کے محتاج ہیں اور وہ ان کی دُنیا میں کسی کے محتاج نہیں۔ بہ خدا! میں نے بصرے میں کسی عزت دار کو نہیں دیکھا، جو حسن کے حلقے میں پہنچنے کی کوشش نہ کرتا ہو۔ ہر شخص ان کا وعظ سننے اور ان سے علم حاصل کرنےکا آرزومند رہتا ہے۔‘‘ یہ سن کر حجّاج بے اختیار بول پڑا، ’’خدا کی قسم یہی سرداری ہے۔‘‘ ان دو واقعات سے علماء کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خود قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت اپنے محبوبؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ’’(اے نبی!) ان سے پوچھو کہ کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنےوالے کبھی یکساں ہوسکتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الزمر)
علماء انبیاء کے وارث: امام الانبیاء، خاتم النبیین سیّدالمرسلین، رسالت مآب، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’علماء، انبیاء کے بعد ان کے وارث اور قائم مقام ہوں گے۔‘‘ (مشکوٰۃ) انبیاء کے علم کی بنیاد، وحی الٰہی تھی۔ علم، انبیاء علیہ السلام اور خاص طورپر اللہ کے آخری رسول، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلیم کی میراث ہے۔ اس مقدس میراث کو علمی اور عملی شکل میں رہتی دُنیا تک عوام النّاس تک پہنچانے کی ذمّے داری اہلِ علم کے حصّے میں آئی، جو وارثِ انبیاء اور جا نشینانِ نبوت کہلائے۔ گزرتے وقت کے ساتھ تیز رفتار معاشرتی تبدیلیوں، سماجی پیچیدگیوں، ماحولیاتی تغیّر اور نت نئے مسائل کا حل احکاماتِ الٰہی اور فرمانِ نبویؐ کی روشنی میں تلاش کرکے اس کی درست، احسن اور قابلِ عمل تشریح و توضیح پیش کرنے کی بھاری ذمّے داری بھی علمائے حق ہی کےکاندھوں پر ہے۔ کفر و الحاد کے اس دور میں کہ جب پوری دُنیا مسائل کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں امّتِ مسلمہ کی رہنمائی کسی جاہل یا کم علم انسان کے بس کی بات نہیں، اسی لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علمائے حق کو نبیوں کا وارث اور ان کا قائم مقام قرار دیا۔ آسمان کے فرشتوں سے لے کر زمین کی چیونٹیوں اور دریائی مچھلیوں تک تمام مخلوقات ان سے محبت کرتی اور ان کے لیے دُعائے خیر کرتی ہیں۔
عالم کو باعمل ہونا چاہیے: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’آدمی اس وقت تک عالم نہیں ہوتا، جب تک وہ اپنے علم پر عمل کرنے والا نہ ہو۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓنے حضرت کعبؓسے پوچھا ’’اہلِ علم کون لوگ ہیں؟‘‘ حضرت کعبؓ نے جواب دیا، ’’وہ جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں۔‘‘(مشکوٰۃ)حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں، ’’اے علم والو! اپنے علم پر عمل کرو، کیوں کہ عالم وہی ہے، جو علم حاصل کر کے عمل کرے اور جس کے علم و عمل میں تضاد نہ ہو۔ جلد ایسے لوگ پیدا ہوں گے، جو علم تو رکھیں گے، مگر علم ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا۔ ان کا باطن ان کے ظاہر سے مختلف ہوگا۔ ان کا علم ان کےعمل کے خلاف رہے گا۔‘‘ حضرت زین العابدینؓ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسینؓ کی مہرِ مبارک پر کندہ تھا ’’جان چکا، عمل کر۔‘‘ حضرت مالک بن دینار کا فرمان ہے، ’’بے عمل عالم کی نصیحت دلوں پر ویسا ہی اثر کرتی ہے، جیسے بارش سنگلاخ چٹانوں پر، جس طرح بارش سے سنگلاخ چٹان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اسی طرح بے عمل عالم کی نصیحت کا بھی سننے والے کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔‘‘ خود قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتےہو۔‘‘ (سورۃ البقرہ) قرآن مجید میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ’’مومنو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو، جو خود نہیں کرتے۔ (سورۃ الصف)
علماء کی قِسمیں: بصرے کے مشہور عالم، حضرت ابو قلابہؒ فرماتے ہیں کہ عالم تین قسم کے ہوتے ہیں۔ (1) ایک وہ، جو اپنے علم سے خود تو زندگی حاصل کرلیتے ہیں، مگر دوسروں کو ان کے علم سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ (2) دوسرے وہ، جن کے علم سے خلقِ خدا تو زندگی حاصل کرتی ہے، لیکن وہ خود محروم رہتے ہیں۔ (3) تیسرے وہ، جنہوں نے اپنے علم سے خود بھی زندگی پائی اور ان کے علم سے عوام النّاس نے بھی فیض حاصل کیا۔
عالم کی چار خصوصیات:
(1)علماء باعمل اورباکردار ہوں۔
(2) علومِ شریعہ پر عبور ہو۔
(3) غور و خوض، تفکّر و تدبّر کے حامل ہوں۔
(4) امَربالمعروف و نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہوں۔
علم کے پانچ درجات:حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں کہ علم کے پانچ درجات ہیں۔
(1) علم حاصل کرتے وقت خاموشی اختیار کی جائے۔
(2) عالم کی باتیں توجّہ سے سنی جائے۔
(3) علم سے جو کچھ حاصل ہو، اسے یاد رکھاجائے۔
(4) جو کچھ معلوم ہو جائے، اس پر عمل کیا جائے۔
(5) جوعلم حاصل ہو، اسے پھیلایا جائے۔
علم کی فضیلت :قرآنِ کریم میں اللہ جل شانہ اپنے پیارے محبوبؐ کو ہدایت فرماتا ہے۔ ’’دُعا کرو، اے میرے رب، مجھے مزید علم عطا فرما۔‘‘ (سورئہ طٰہ)۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا فرمان ہے ’’علم پیغمبروں کی میراث اور مال کفار کی۔‘‘ حضرت علی مرتضیٰؓ نے فرمایا ’’علم، مال سے بہتر ہے، کیوں کہ مال کی نگرانی کرنی پڑتی ہے، مگر علم، تمہارا نگراں ہوتا ہے۔ مال خرچ کرنے سے ختم ہو جاتا ہے، مگر علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔ علم حاکم ہے اور مال محکوم، مال دار، فنا ہوجائیں گے، مگر علم والے رہتی دنیا تک زندہ رہیں گے۔ بے شک ان کے جسم مٹ جاتے ہیں، مگر ان کے کارنامے کبھی مٹنے والے نہیں۔‘‘ حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں ’’جو شخص علم سے محبت نہ کرے، اسے اپنا دوست نہ بنائو۔‘‘ آگے فرماتے ہیں ’’علمِ دین کا حصول، نفل نماز پڑھنے سے زیادہ افضل ہے۔‘‘ حضرت امام زہریؒ کا فرمان ہے ’’علم سےبہتر کوئی چیز نہیں، جس سے خدا کی عبادت ممکن ہو۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پہلی وحی نازل ہوئی، اس کا پہلا لفظ ہی اقراء یعنی ’’پڑھ‘‘ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم کے حوالے سے فرمان ہے،’’میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ۔‘‘ حضرت بابا فرید گنج شکر کا مشہور قول ہے، ’’اگر زندگی ہے، تو علم میں ہے۔ اگر راحت ہے، تو معرفت میں ہے۔ اگر شوق ہے، تو محبتِ الٰہی میں۔ اگر رزق ہے، تو ذکرِ الٰہی میں۔‘‘ ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’گہوارے سے قبر تک علم کی طلب جاری رکھو۔‘‘
علماء کا اَدب و احترام:علمائے کرام کا ازحداَدب و احترام کیا جائے اور ان کے ساتھ عقیدت و محبت سے پیش آیا جائے۔ حضرت عبادہؓ بن صامت سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص بڑوں کی عزت نہ کرے، چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور علماء کا حق نہ پہچانے، وہ میری اُمت میں سے نہیں۔‘‘ (طبرانی) حضرت ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’علماء کی عزت کرو، کیوں کہ یہ انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘ (کنزالعمال) سیّدنا علی مرتضیٰؓ نے فرمایا ’’عالم کا تم پر یہ حق ہے کہ تم مجلس میں لوگوں کو بالعموم سلام کرو اور عالم کو خصوصیت کے ساتھ علیٰحدہ سلام کرو۔ اگر ان کے سامنے بیٹھو، تو ہاتھ سے یا آنکھوں سے اشارے نہ کرو، جب وہ کوئی مسئلہ بتائیں، تو یہ نہ کہو کہ فلاں نے تو اس کے خلاف کہا ہے۔ ان کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرو، نہ ان کی مجلس میں کسی سے سرگوشی کرو۔ ان کے کپڑے کو نہ پکڑو، کیوں کہ وہ کھجور کے درخت کی طرح ہے، تم منتظر رہو کہ تم پر کب اس سے کوئی پھل گرتا ہے، کیوں کہ مومن عالم کا اجر، روزے دار اور قیام کرنے والے عابد اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے شخص سے زیادہ ہے اور جب عالم مرتا ہے، تو اسلام میں ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے، جسے قیامت تک پر نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ (کنزالایمان)
علماء کے ساتھ حسنِ سلوک: بلاشبہ، علماء معاشرے میں بہترین سلوک کے حق دار ہیں۔ عوام النّاس کا یہ فرض ہے کہ علماء کی علمی اور دینی خدمات کے پیشِ نظر ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں، ان کی تعظیم، اطاعت کے ساتھان سے عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔ ان کے آرام اور دیگر ضروریات کا خیال رکھیں۔ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے علم کی پیاس بجھائیں۔ ان سے کسی مسئلے پر اختلاف کی صورت میں ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا نقطہ نظر پیش کریں اور مجلس میں علماء سے بحث و مباحثے یا تکرار سے گریز کریں۔حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عالم، زمین پر اللہ کا سلطان ہے، جو اس کی مذمت کرے گا، وہ ہلاک ہوگا۔‘‘(مجمع الزوائد)۔ یاد رہے، علمائے حق کی تضحیک دلوں پر مہر لگا دیتی ہے، جس سے سیکھنے کا عمل ختم ہوجاتا ہے، جب کہ علماء کے ساتھ حسنِ سلوک، ذہنی سکون و اطمینان کا باعث بنتا ہے، لہٰذا ان کی محفلوں میں ادب و احترام سے شرکت کریں، جہاں جگہ مل جائے، بیٹھ جائیں۔ آگے بڑھ کر بیٹھنے کی کوشش نہ کریں۔ ان کی اجازت کے بغیر گفتگو نہ کریں۔ جب بھی بات کریں، مختصر کریں۔ سوال کرنے سے پہلے اجازت لیں، راستے میں ان سے آگے چلنے سے گریز کریں۔
علماء کا مقام و مرتبہ:علماء کا یہ بھی حق ہے کہ عوام النّاس ان کے مرتبے ومقام کو تسلیم کریں اور انہیں وہ عزت و احترام دیں، جس کے وہ اہل ہیں۔ علومِ شرعیہ کی ترویج و اشاعت اور تبلیغ کی بھاری ذمّے داری علماء کے کاندھوں پر ہے۔ علماء یہ اہم فرائض بہ احسن و خوبی اسی وقت انجام دے سکتے ہیں، جب معاشرے میں انہیں جائز مقام دیا جائے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ’’زمین پر علماء آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں، جن سے سمندر اور خشکی پر ہدایت حاصل کی جاتی ہے، اگر ستارے چھپ جائیں، تو قریب ہے کہ ہدایت حاصل کرنے والے بھٹک جائیں۔‘‘ (مسندِ احمد) حضرت عبدالرحمنٰ بن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’عالم کی عابد پر ستّر درجے فضیلت ہے اور ہر درجے کے درمیان آسمان اور زمین جتنا فاصلہ ہے۔‘‘ (ابویعلیٰ) حضرت زید بن اسلم ؒ تابعی غلام تھے، مگر ان کے علمی فضل و کمال کا یہ عالم تھا کہ جہاں سے گزرتے، ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگوں کا ہجوم لگ جاتا تھا۔ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت زید بن اسلم ؒ کو ایک نظر دیکھ لینے سے عبادت میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت ابو حازم ؒ فرماتے ہیں کہ ’’اے اللہ! تو خوب واقف ہے کہ میں زید کو اس لیے دیکھتا ہوں کہ ان کو دیکھنے سے تیری عبادت کی طاقت آتی ہے۔‘‘ حضرت نافعؓ ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کے علم و فضل کا یہ عالم تھا کہ حافظ زہبی رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں امام العِلم کے لقب سے یاد فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان کے بڑے قدر دان تھے،وہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’اللہ نے نافعؓ کے ذریعے ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے۔‘‘ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کو حضرت نافعؓ کی بیان کردہ احادیث پر اتنا یقین تھاکہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’جب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ کوئی حدیث نافعؓ سے سن لیتا ہوں، تو پھر مجھے کسی اور سے اس کی تصدیق کی ضرورت نہیں رہتی۔‘‘ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ بربر النسل تھے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ کم سِنی ہی میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس آگئے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ نے ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت بڑے نازونعم کے ساتھ کی، وہ مسلسل چالیس سال تک قرآن، حدیث، تفسیر، فقہ اور دیگر علومِ شرعیہ کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ کا شمار اپنے وقت کے بڑے علماء میں ہونے لگا اور ایک وقت آیا کہ جیّد علماء انہیں رشک کی نظر سے دیکھتے اور ان کی مجلس میں بیٹھنا باعثِ سعادت سمجھتے۔ علامہ ابنِ سعد لکھتے ہیں کہ’’ حضرت عکرمہ ؒ، علم کے سمندروں میں سے ایک سمندر تھے۔‘‘
علماء کی اتباع: علماء کی مجالس میں بیٹھنے والوں کے دلوں میں خوفِ خدا اور خشیتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے۔ جس کی بناء پر سننے والا گناہ ترک کرکے خود کو اللہ کی راہ پر گام زن کردیتا ہے۔ ایک بار حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے پوچھا ’’اب تیری دانائی کس منزل پر ہے؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا ’’غیرضروری باتوں سے پرہیز کرنے لگا ہوں۔‘‘ حضرت لقمان نے کہا ’’ابھی ایک کسر باقی ہے، اور وہ یہ کہ علم رکھنے والوں کی صحبت میں بیٹھو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ دانائی کے نور سے مردہ دلوں کو اس طرح زندہ کردیتا ہے، جس طرح مینہ سے مردہ زمین کو۔‘‘ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا ’’علماء کی اتباع کرو، کیوں کہ وہ دنیا اور آخرت کے چراغ ہیں۔ (کنزالعمال) حضرت ابو امامہ باہلیؓ بیان کرتے ہیں ’’رسول اللہﷺ کے سامنے دو آدمیوں کا تذکرہ کیا گیا، جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم۔ آپﷺ نے فرمایا ’’عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح سے ہے، جیسے میری تمہارے ایک ادنیٰ ترین آدمی پر۔‘‘ پھر فرمایا ’’یقیناً اللہ تعالیٰ فرشتے اور تمام اہلِ زمین و آسمان، یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں (بھی) اس شخص کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں اور رحمت بھیجتی ہیں، جو لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھاتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
علمائے حق اور علمائے سوء: علمائےحق، اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں، جو معاشرے میں امن آشتی اور بھائی چارے کو عام کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف علمائے سوء معاشرے میں انتشار کا باعث بنتے ہیں۔ حضرت عمرو بن احوصؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ’’ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺسے شر کے بارےمیں دریافت کیا، توحضوراکرمﷺ نےفرمایا ’’مجھ سے شرکے بارے میں نہیں، بلکہ خیر کے بارے میں معلوم کرو۔ بروں میں سب سے برے علماء بھی ہیں اور اچھوں میں سب سے بہتر بھی علماء ہی ہیں۔ (دارمی) اس حدیثِ مبارکہ ؐ میں بتایا گیا ہےکہ علماء دو طرح کے ہیں۔ ایک اچھے علماء، جنہیں علمائے حق، جب کہ دوسرے برے علماء، جنہیں علمائےسوء کہتےہیں۔ علمائے حق کا کردار ہی ان کے علم و عمل کی گواہی دیتا ہے، ان کی ذات سے پھوٹتا عشقِ الٰہی اور محبتِ رسول اکرم ﷺ معاشرے میں ان کی پہچان کروانے کے لیے کافی ہے، جب کہ علمائے سوء اس کے برعکس چہرہ پیش کرتے نظر آتے ہیں اور جہنم کے حق دار ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’اللہ تعالیٰ علمِ دین کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ بندوں کے سینوں سے نکال لے، بلکہ اہلِ علم کو موت دے کر علم کو اٹھالے گا۔ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا، تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے اور ان سے مسائل پوچھے جائیں گے، تو وہ بغیر علم کے فتوے دے کر خود بھی گم راہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی کریں گے۔ (صحیح بخاری)