• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کے دن ایک ایسی بھلی روح اس دنیا میں آئی جو اپنے ازل سے آگاہ تھی کہ کیسے اُس نے اپنے رب کی مسحور کن اور پاکیزہ آواز پر بے شک کہا تھا وہ اس دھرتی سے اپنے تعلق کی حقیقت کو جانتی تھی کہ یہ تو آدم کی تخلیق سے قبل کی بات ہے اُسے اس بات پر کوئی شک نہ تھا کہ ہم سب ایک تھے اور وہیں سے ہمارا رشتہ شروع ہوتا ہے۔ اس دنیا میں آنے پر اُس کا استقبال ایک توانا روح والی دبنگ شخصیت نے کیا اس دنیا میں تو اُن کا رشتہ باپ اور بیٹی کا تھا مگر یقیناً وہاں پر اُن کی روحیں باہم مدغم تھیں۔ باپ نے بیٹی کو دیکھتے ہی کہا کہ گلابوں کی دھرتی پر پیدا ہونے والی کی رنگت بھی گلابی ہے لہٰذا اُس نے اُسے پنکی کا نام پیار سے دیا مگر باپ سیاسی قلندر تھا کیسے اپنے وجدان سے بیٹی کا مستقبل نہ دیکھتا لہٰذا بیٹی کے مستقبل کے کردار کو دیکھتے ہوئے اُس کا نام ’’بے نظیر‘‘ رکھا۔ اس طرح اُس کی کائنات اور وارث قرار پانے والی بیٹی حکمت اور خوبصورتی کا حسین امتزاج تھی۔
جس عمر میں بچیاں پریوں کی کہانیاں سنتی ہیںبے نظیر ان کرداروں سے اپنی روح کو سیراب کرنے لگی۔ والد نے انھیں دنیا کی بہترین درسگاہوں میں علم کے حصول کیلئے بھیجا اور اس کے ساتھ ساتھ خاص تربیت بھی جاری رکھی۔ باپ اپنی بیٹی کو بے نظیر دیکھنا چاہتا تھا اور بیٹی صرف اپنے باپ کے خوابوں کی تکمیل چاہتی تھی۔
بھٹو صاحب جانتے تھے کہ معاشرتی و معاشی مساوات کے لئے عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنانا ضروری ہے اور اُنھیں جہل اور ظلم کی قوتوں سے نجات دلانا لازم ہے۔
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
بس بھٹو صاحب کی نظر اس طرف لوٹ جاتی تھی اور کوئی حسن اُنھیں اپنی طرف متوجہ نہ کرپاتا۔ وہ وقت آن پہنچا جس کیلئے شاید پنکی کو بے نظیر بنایا گیا۔ باپ تاریخ انسانی کے عین مطابق عامیوں کی حمایت میں خواص کی طرف سے باغی قرار پایا اور سزا بھی وہی مقدر ٹھہری کہ
موسم آیا تو نخل دار پہ میر
سر منصور ہی کا بار آیا
مگر اس سے قبل ہی باپ اپنے عشق لازوال کی وراثت قید خانہ سے اپنی بے نظیر بیٹی کو اُس کی 25ویں سالگرہ کے موقع پر منتقل کر گیا۔
’’آج میں تمہارے ہاتھ میں عوام کا ہاتھ دیتا ہوں‘‘ اس طرح بے نظیر بھٹو کو موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ اپنی زندگی کا انتخاب کرتی بلکہ اس زندگی نے اُس کا انتخاب کر لیا اور جدوجہد پکار اُٹھی کہ ’’چن لیا میں نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا۔‘‘ لہٰذا اُس عمر میں جب لڑکیاں شہزادوں کے خواب دیکھتی ہیں بے نظیر بھٹو کی یادیں زندانوں میں محکوموں کے مساوی حقوق کی جدوجہد کو حکمت عملی بنانے میں یکسو رہیں۔ ہتھکڑیاں اُس کے ہاتھوں سے عوام کا ہاتھ نہ چھڑوا سکیں کہ
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں
کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں
عوام سے عشق کا علم تھامے بے نظیر بھٹو قریہ قریہ نکلی جدوجہد جاری رہی کبھی میدانوں میں کبھی ایوانوں میں کبھی کٹہروں میں کبھی درباروں میں لیکن کوئی آزمائش حوصلوں کو متزلزل نہ کر سکی سب سے چھوٹے بھائی کو سازشوں نے قتل کیا تو اُسے اپنی زمین میں دفن کرتے وقت شاید یہی عہد کرتی رہی ۔
آئو یہ زمین کھودیں
اور اس میں اپنے دل بودیں
کریں سیراب اس کو آرزئوں کے پسینوں سے
کہ اس بے رنگ جینے سے نہ میں خوش ہوں نہ تم خوش ہو
نہ ہم خوش ہیں
کوئی غم آ گے بڑھنے سے روک نہ سکا جب ہر سو ہو کا عالم تھا لوگ حق بات کہنے سے ڈرتے تھے اُس وقت لشکر یزید میں اک کنیز کربلا مظلوموں کی آواز بن کر ظالموں کو للکار رہی تھی کہ میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے۔ جدوجہد دریائوں کی مانند آ گے ہی آگے بڑھتی رہی ایک دشمن ختم ہوا تو اپنے بہت سے حواری بصورت وارث چھوڑ گیا۔ کبھی مکمل اقتدار منتقل نہ ہوا کہ خوف رہا کہ کہیں عوام طاقت کا سرچشمہ بن کر مکمل معاشرتی و معاشی مسوات کا نام نہ لے آئیں۔ دختر مشرق کو سازشوں میں گھیرا جاتامگر وہ اپنی دھن میں پکی عوام کے عشق میں مست لوگوں کو روزگار کی صورت میں روٹی کپڑا اور مکان دیتی رہی۔ علم کی شمعیں جلاتی رہی۔ صحت کی نعمت عوام کے دروازوں تک پہنچاتی رہی۔ روشنی گھر گھر پہنچتی، لوگ گاتے رہے کہ میرے گائوں میں بجلی آئی ہے۔
آج بھٹو کے قاتل کے وارث جب بھٹو کے کارناموں کا ورد کرتے ہیں تو سمجھ آتی ہے کہ بے نظیر جدوجہد کا ثمر کیا ہوتا ہے۔
جب بھٹو کی بیٹی کو شہر شہر کٹہروں میں پیش کرنے والوں کی چیخیں بلند ہوتی ہیں کہ ہائے کسی کی بیٹی کو بیٹی سمجھو تو مکافات عمل کا مطلب اور تاریخ کی سچائی سمجھ میں آتی ہے۔ آج بے نظیر بھٹو کے بدترین مخالفین جب بے نظیر بھٹو کے مشن کی تکمیل کا عہد کرتے ہیں تاکہ اُن کا اپنا قد بڑھ سکے تو بے نظیر جدوجہد کی حقیقت کا ادراک ہوتا ہے۔
بھٹو کی بے نظیر بیٹی آخری سانس تک ملک کے بلاولوں، بختاوروں اور آصفائوں کیلئے جدوجہد کرتی رہی اور اپنا آج ان کے کل پر قربان کرتی رہی کہ اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں لیکن بی بی کی زندگی کا مقصد تو اوروں کے کام آنا تھا۔
لیکن مبشر زیدی کے مطابق بی بی اُس جہاں میں بھی اپنے سب بچوں کے ساتھ ہے ، اور کہتی ہے کہ
’’میری بہنوںاور بھائیو! پاکستان میں جو لوگ دہشت گردی میں شہید ہوئے اُن سب کو جنت کے ایک باغ میں جمع کردیا گیا ہے۔ ہم یہاں پہلے سے موجود تھے پشاور کے بچے بھی یہیں ہیں۔ ان بچوں کی قربانی عظیم ہے۔ کیونکہ ان کا خون بہنے کے بعد قوم متحد ہو گئی۔ مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ آپ دہشت گردوں سے لڑیں شدت پسندی کا خاتمہ کریں اور ان بچوں کی فکر نہ کریں میں یہاں ان کا بہت خیال رکھوں گی۔ آخر میں بھی ایک ماں ہوں۔ آپ کی بہن۔ بے نظیر بھٹو‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین