• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عید سے پہلے سپریم کورٹ کے حکم پر اوگرا نے سی این جی کی قیمتوں میں 30روپے 90پیسے فی کلو تک کمی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جس کے بعد ریجن ون جس میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان آتے ہیں، میں سی این جی کی قیمت 61.64 روپے اور ریجن ٹو جس میں پنجاب اور سندھ آتے ہیں، میں سی این جی کی قیمت 54.16روپے مقرر کی گئی ہے۔ سی این جی ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے اور اوگرا نوٹیفکیشن کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی این جی اتنی سستی ہونے سے انہیں12 روپے فی کلو کا نقصان ہو رہا ہے اور نئی قیمتوں سے سی این جی اسٹیشنز کا تمام منافع 20 روپے فی کلو ختم ہوگیا ہے، ان حالات میں ان کیلئے سی این جی اسٹیشنز چلانا منافع بخش نہیں رہا جبکہ وزیراعظم کے مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے قیمتیں کم نہ کرنے اور سی این جی اسٹیشنز بند کرنیوالے سی این جی مالکان کے لائسنس منسوخ کرنیکی ہدایت کی ہے۔ سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین کے مطابق تھائی لینڈ میں سی این جی کی قیمتیں پیٹرول اور ڈیزل کے مقابلے میں 76.7%، بنگلہ دیش میں 68.61%، انڈونیشیا میں 51.65% اور انڈیا میں 58.84% کم ہیں۔ حکومت کے 200 روپے فی MMBTU گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیز (GIDS) لگانے سے پاکستان میں سی این جی کی قیمتیں دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہوگئی ہیں۔
پاکستان کی موجودہ گیس کی مجموعی پیداوار اس وقت یومیہ 2.7 ٹریلین کیوبک فٹ ہے اور سردیوں میں یومیہ تقریباً 2/ارب کیوبک فٹ گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں سی این جی سیکٹر کو مجموعی گیس پیداوار کا تقریباً16% یعنی 400MMCF گیس سپلائی کی جارہی ہے ، اس کے علاوہ 20% سے 22% یعنی 200MMCF سی این جی کی چوری کا تخمینہ ہے۔ ملک میں سی این جی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور مستقبل میں صنعت کو گیس سپلائی کرنے کے بارے میں حکومت کے لائحہ عمل کے سلسلے میں، میں نے ڈاکٹر عاصم حسین سے ایک تفصیلی ملاقات کی۔ پاکستان میں اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں سی این جی پر ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں سیاسی بنیادوں پر سیکڑوں سی این جی لائسنس جاری کئے گئے اور لوگوں نے اربوں روپے کی سی این جی سیکٹر میں سرمایہ کاری کی لیکن ملک میں گیس کے ذخائر میں کمی کے باعث اب حکومت کیلئے مشکل ہوگیا ہے کہ وہ گھریلو صارفین، صنعت، بجلی گھروں ، فرٹیلائزر پلانٹس اور سی این جی کو بلاتعطل گیس کی سپلائی جاری رکھے جس کی وجہ سے ہفتے میں 2 دن سی این جی اور صنعت کی بندش کی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود صنعت کو مطلوبہ گیس پریشر نہ ملنے کی وجہ سے ہفتے کے باقی دنوں میں بھی گیس کی فراہمی یقینی نہیں ہے جس سے صنعت کی پیداواری صلاحیتیں اور ایکسپورٹ آرڈرز بری طرح متاثر ہورہے ہیں اور ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ہمارا فریضہ ہے کہ قدرتی گیس جو ہمارا قومی اثاثہ ہے اور جس کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں کو نہایت موثر طریقے سے استعمال کریں۔ سی این جی کا متبادل فیول موجود ہے یعنی سی این جی سپلائی نہ ہونے کی صورت میں ڈیزل یا پیٹرول سے گاڑیاں چلائی جاسکتی ہیں لیکن صنعت کو گیس نہ ملنے کی وجہ سے اس کا پہیہ رک جاتا ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں۔ اس کے علاوہ صنعتی شعبہ ملک میں روزگار کے مواقع اور ایکسپورٹس کے ذریعے زرمبادلہ کماتا ہے، قدرتی گیس کے استعمال سے سی این جی کی کارکردگی صرف 13% جبکہ صنعتی شعبے کی کارکردگی 50% سے زیادہ ہے جس کی بنیاد پر ہماری سفارش پر کابینہ نے گیس کی سپلائی میں گھریلو صارفین کے بعد صنعتی شعبے کو دوسرے نمبر پر ترجیح دی تھی اور سی این جی کو سپلائی سب سے آخری نمبر پر تھی لیکن سیاسی حالات کے مدنظر ان ترجیحات میں تبدیلی کی جاتی رہی۔ پاکستان میں سی این جی کی قیمت کا تعین کرتے وقت اسے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں سے 50% کم رکھا گیا تھا۔ مشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین سے بے شمار ملاقاتوں سے میں نے یہ اخذ کیا کہ حکومت پیٹرول، ڈیزل اور سی این جی کی قیمتوں میں موجودہ فرق کو کم کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ سی این جی کا استعمال اتنا زیادہ پرکشش نہ رہے لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے نتیجے میں سی این جی کی قیمتوں میں30 روپے فی کلو کی کمی نے سی این جی کی قیمت کو دوبارہ نہایت پرکشش بنادیا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تقریباً 64% بجلی تھرمل اور 33% ہائیڈرو سے پیدا کی جاتی ہے جبکہ متبادل توانائی سے سستی بجلی نہ ہونے کے برابر حاصل کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہماری بجلی کی اوسط پیداواری لاگت زیادہ ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک کی مجموعی توانائی کا 53.4% گھریلو صارفین، 12.1% صنعت، 27.1% زراعت اور 7.4% تجارت میں استعمال ہورہا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں توانائی کا سب سے زیادہ استعمال صنعت میں ہوتا ہے۔ہمارے ملک میں گھروں میں اے سی، ہیٹرز اور گیزر کے بے جا استعمال کی وجہ سے گھریلو صارفین کا توانائی کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔اس وقت ملک کو مجموعی طور پر تقریباً 2/ارب MMCF یومیہ گیس کی کمی کا سامنا ہے جسے پورا کرنے کیلئے ہمیں قطر اور دوسرے ممالک سے ایل این جی گیس امپورٹ کرنا ہوگا لیکن اس کیلئے ملک میں ایل این جی ٹرمینل اور اس کا انفرااسٹرکچر ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ نئی پیٹرولیم پالیسی کے تحت پاکستان میں گیس کے نئے کنوؤں کی دریافت کے عمل کو تیز کرنا ہوگا۔ سندھ میں شیل گیس کے کثیر ذخائر دریافت ہوئے ہیں، ہمیں شیل گیس کو نکالنے اور اسے ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجی کو جلد از جلد حاصل کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی کمپنی ENI نے حکومتی کمپنی کے ساتھ ایک جوائنٹ وینچر معاہدے پر کام شروع کردیا ہے۔ طویل المیعاد منصوبوں میں پاکستان، ایران گیس پائپ لائن اور ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا (TAPI) گیس پائپ لائن کے منصوبے شامل ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ایران نے اپنے ملک میں پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کے تحت اپنے حصے کے گیس پائپ لائن کا کام تقریباً مکمل کرلیا ہے اور پاکستان کے حصے کی پائپ لائن جس کی مجموعی لاگت 1.3/ارب ڈالر ہے میں سے 250 ملین ڈالر قرضہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ امریکہ کو پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر تحفظات ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی بینک اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسی ڈونر ایجنسیاں اس منصوبے کی فنانسنگ میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین جو ملک میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش اور اس کے انفرااسٹرکچر میں فروغ کیلئے انتھک محنت کررہے ہیں نے مجھے بتایا کہ ملک میں گیس کے انفرااسٹرکچر کو ترقی دینے کیلئے حکومت نے صنعتی اور سی این جی شعبے پر گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیز (GIDS) لگایا ہے اس سے ہم صنعتی شعبے کو گیس کی فراہمی بہتر بنانے اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرنے پر خرچ کریں گے۔ انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ ان صنعت کاروں جنہوں نے حکومت کے GIDS پر ہائیکورٹ سے حکم امتناعی لے رکھا ہے وہ اپنے مقدمات واپس لے لیں کیونکہ اب حکومت نے اپٹما سے مذاکرات کے بعد صنعت پر GIDC کو 100 روپے فی MMBTU سے کم کرکے 50 روپے کردیا ہے۔ میرے کہنے پر ڈاکٹر عاصم نے صنعت کاروں کو بقایا جات 6 قسطوں میں ادا کرنے کی سہولت فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ میں نے اپٹما کے سابق چیئرمین گوہر اعجاز سے اس موضوع پر بات کرکے ڈاکٹر عاصم حسین کو یقین دلایا کہ صنعت کار اس سلسلے میں حکومت سے مکمل تعاون کریں گے تاکہ ملک میں صنعتوں کیلئے گیس کی سپلائی کا بہتر انفرااسٹرکچر فراہم کیا جاسکے۔ آخر میں میری حکومت سے درخواست ہے کہ قدرتی گیس جو ہمارا قومی اثاثہ ہے اور جس کی پیداوار میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے کو قومی مفاد میں صحیح ترجیحات پر نہایت موثر کارکردگی کی بنیاد پر استعمال کیا جائے کیونکہ غلط ترجیحات اور غیر موثر استعمال سے یہ قومی اثاثہ ضائع ہوجائے گا جس کا ہمارا ملک اور صنعتی شعبہ متحمل نہیں ہوسکتا۔
تازہ ترین